حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حسب ظروف و احوال دنیا کے تمام ملکوں ، تمام قوموں اور تمام ادیان و ملل کے سامنے موثر ترین اسالیب پر مشتمل ابلاغ دین کی انشاء اللہ ایک مکمل راہنما کتاب ثابت ہوگی‘‘۔(۴)دعوت دین کی اہمیت و ضرورت امت محمدیہ نبی آخر حضرت محمدؐ کی جانشین ہے۔ لہٰذا دعوت دین اور شہادت حق کا وہی فریضہ اس امت کو بھی انجام دینا ہے جو خدا کے انبیاء کرام انجام دیتے رہے ہیں ۔ اللہ پاک نے دعوت دین کی اہمیت وفرضیت کے لئے قرآن مجید میں جگہ جگہ تلقین کی ہے اور دعوت دین و شہادت علی الناس کے لئے امت مسلمہ کو اللہ نے منتخب کر لیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (سورۂ بقرہ) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دعوت کی فضیلت اس طرح بیان کی ہے: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔(حم سجدہ) آیت کریمہ میں دعوت دین کو عملِ دین پر بھی فضیلت دی گئی ہے اور استفہام بقصد نفی کی تعبیر نے دعوت دین کی اہمیت کو فرید آشکارا کردیا ہے۔ دعوتِ دین کی اہمیت کے متعلق مولانا محمد طیب صاحبؒ اپنی مایہ ناز تصنیف میں رقم طراز ہیں : ’’اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی سعادت کا دارومدار دو چیزوں پر ہے۔ صلاح اور اصلاح یعنی خود صالح بننا اور دوسروں کو صالح بنانا یا خود کمال پیدا کرکے دوسروں کو باکمال کردینا، جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں محض لازمی اور ذاتی نفع پر قناعت نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کو متعدی بنایا گیا ہے کہ ایک سے دوسرے تک پہونچے۔‘‘ (۵)دعوت دین کی ضرورت عالمِ انسانیت کی شو مئی قسمت رہی ہے کہ یہ عقل و ادراک کی بے پناہ قوتوں کے باوجود تاریخ کے ہر دور میں کائنات کی دوسری مخلوقات کی بنسبت بے عقلی اور فریب کی زنجیروں میں افسوس ناک حد تک گرفتار رہی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جس حقائق اور متعلقات سے اسی کا زیادہ واسطہ رہا اسی کو سمجھنے میں اس نے زیادہ غلطی کی ہے۔ مثلاً خود انسان کا خالق اور خالق کائنات ’’اللہ‘‘ جس سے انسان کا تعلق ابتدائے آفرینش سے ہے۔ اس کے متعلق ان لوگوں میں بھی جو اللہ کے عقل و نگاہ سے پرے ہونے کے باوجود اسے تسلیم