حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ ایک باکمال شاعر بھی مولانا عبدالحفیظ رحمانی حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی ہمہ جہت شخصیت، ہر سمت سے پرکشش اور بے نظیر ہے، جولان گاہ علم و فضل میں کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جو اچھوتا ہو اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے فکر و فن نے ہر گوشہ کی تزئین کاری میں اپنی جدت طرازی کا لوہا نہ منوایا ہو۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں وہ منفرد اسلوب کے مالک ہیں تو خطابت میں بے مثال ہیں ، فقہی ژرف نگاہی میں باکمال ہیں تو احادیث کے رمز شناس ہیں ، اسرار و حکم میں وہ اپنے دادا کے عکس جمیل ہیں تو تدریس اور افہام و تفہیم میں لاثانی ہیں ، انتظام و انصرام میں دارالعلوم کا ساٹھ سالہ اہتمام گواہ ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ حضرت مولانا طیب صاحبؒ بہ یک وقت دیدہ ور مصنف، بے مثال خطیب، ژرف نگاہ فقیہ، ثاقب النظر محدث، وسیع المطالعہ مدرس، فطری شاعر و ادیب اور اسرار و حکم کے ادا شناس تھے تو حقیقت کی طرف اشارہ ہی ہوگا، اس لئے کہ کتاب زندگی کا ہر عنوان تفصیل طلب ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر عنوان پر کشش ہے اور دامن علم و فضل کا ہر تار نظرو فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ کتاب زندگی کے انہی عناوین میں ایک شعرو شاعری بھی ہے، اکابر علماء دیوبند کا ایک طرۂ امتیاز یہ بھی رہا ہے کہ وہ واردات قلبی کو شعری قالب میں ڈھالنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے ، شعر و شاعری کو انہوں نے اپنا مشغلہ تو نہیں بنایا لیکن سوز دروں کی آنچ نے جب بے قرار کیا تو خود بخود جذبات نے شعر کا قالب اختیار کر لیا، پڑھنے والے کو محسوس ہوا کہ شاعر تو مشق نہیں کہنہ مشق ہے، محاسن شعری سے خالی نہیں کلام محاسن سے شعری معمور ہے، بلند مضامین، اعلیٰ درجہ کا تخیل، نکتہ آفرینی، روانی و سلامت اور ردیف و قافیہ کی پابندی، نیز واردات قلبی کا شفاف آئینہ ہے۔