حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
علم کا بحرِ ذخّار ناز انصاری سابق ایڈیٹر روزنامہ الجمعیۃ، دہلی ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے آج حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ ہمارے درمیان نہیں ہیں کہ ہمیں حکمت و دانائی کی باتیں بتائیں لیکن ان کی خوبیاں ان کی سیرت وکر دار اسلام اور امت مسلمہ کے لئے ان کی خدمات جلیلہ ہمارا سرمایہ اور ہماری ملی زندگی کا گراں قدر اثاثہ ہیں ، ان کی زندگی ان اقدار سے عبارت تھی جو ان کے بعد حد نظر اور فکر و خیال کی پرواز و رسائی تک ہمیں کہیں نظر نہیں آتیں ۔ یقینا یہ ہماری ملی زندگی کا بہت بڑا المیہ ہوگا کہ ہم ان کے لئے رنج و افسوس تو کریں مگر ان کی زندگی کو آدرش مان کر ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش اور عزم نہ کریں ۔ حکیم الاسلامؒ حیات تھے تو ہم ان کی محافل وعظ و نصیحت میں شرکت تو کرتے مگر ہم نے یہ کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کی عظیم المرتبت شخصیت ہمارے لئے کس درجہ اہمیت کی حامل ہے، مگر آج جب کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔ یہ ہمارا ملی فریضہ ہے کہ انھوں نے زندگی کی جن شاہراہوں کی نشان دہی کی تھی ان پر چل کر ہم ان منازل کو طے کریں جو اسلام نے انسانی زندگی انسانی سماج ملک و قوم کی عظمت و سربلندی حاصل کرنے کے لئے متعین کی ہیں ۔ آج وہ بے شک نہیں ہیں لیکن ملک کا کون سا گوشہ کون سا قریہ ہوگا جہاں ان کی آوازیں ، ان کے پند و نصائح کانوں میں نہ گونج رہے ہوں اور انسانی ضمیر پر دستک نہ دے رہے ہوں ۔ حکیم الاسلامؒ علم کا سرچشمہ تھے جس سے ایک نہیں ہزاروں دریا بلکہ دریائے فیض رواں ہوئے ہیں ۔ وہ دینی علمی دنیا کی ایک ایسی قدآور شخصیت تھے، جسکے سایہ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں شخصیتیں دینی اورعلمی مطلع پر ابھریں وہ ایک ایسا چراغ تھے جس سے ہزاروں قندیلیں روشن ہوئیں ۔ وہ علم کا ایک بحرِ ذخار تھے جس کے