حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس دین کے معنی تسلط و غلبہ بندگی و اطاعت شریعت اسلامی قوانین اسلامی محاسبہ جزاء و سزا ہے۔ اس طرح دین کی دعوت کا مطلب یہ ہوا کہ اس بات کی دعوت دی جائے کہ اللہ کی زمین پر تسلط و غلبہ اللہ کی شرعی حاکمیت ہی کی ہو۔ ادیان باطلہ کو زیر نگیں ہو کر رہنا چاہئے۔ بندگی و اطاعت صرف اللہ کی کی جائے۔ غیراللہ کی بندگی سے باز آیا جائے اور شریعت مطہرہ ہی کی فرماں روائی ہو۔ اس سے روگردانی کی صورت میں محاسبہ گرفت اور جزاء و سزاء کا نظم قائم ہوجائے۔ دعوت دین کا مفہوم ان سارے امور پر محیط ہے۔ لہٰذا مولانا محمد طیب صاحبؒ کا اشارہ اسی جانب ہے کہ فریضۂ دعوت و تبلیغ کو اسی کے تمام مطلوبات کے ساتھ ادا کیا جائے۔دعوت دین و اعلاء کلمۃ اللہ امت کی شوکت کا ضامن غلبہ و حکمرانی امت مسلمہ کا وطیرہ ہے۔ عزت و سربلندی مسلمانوں کی میراث ہے لیکن مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اس دین کی سربلندی سے وابستہ ہے۔ امت مسلمہ کو اسی وقت عزت و وقار کی زندگی حاصل ہو سکتی ہے جب دین تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو۔ رسول اکرمB اسی مقصد عظیم کی خاطر مبعوث ہوئے تھے۔ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی و دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَِوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ اسلام آیا ہی غالب اور سربلند ہونے کے لئے الاسلام یعلوا ولا یعلیٰ (حدیث) لہٰذا امت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے اور عظمت رفتہ کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوت دین، اظہارِ دین اور غلبۂ اسلام کے لئے اٹھ کھڑی ہو ورنہ غلط راہوں پر چل کر کبھی بھی اسے عزت و شوکت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دعوت دین اور غلبہ اسلام کا مقصود و مطلوب بھی غلط راہوں اور غلط طریقہ کار سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا دعوت دین اورغلبہ اسلام اور مسلمانوں کی عزت و سطوت یہ دونوں مطلوب و مقصو قرآن کی متعین کردہ راہ پر چل کر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مولانا محمد طیب صاحبؒ ان دونوں حقائق کو بڑے لطیف پیرایہ میں سمو دیا ہے۔ آپ لکھتے ہے: ’’اور یہ دینی و ایمانی ملکات جن میں علم و معرفت کی حدود اور عمل کی معتدل بنیادیں استوار ہوں وہی دین ہے جو مستند علم اور اخلاق کا مجموعہ ہے ۔ اس لئے حدیث نبوی کا صاف مطلب و منشاء یہ نکلا کہ تم اقوام پر دین سے غالب آسکتے ہو، دنیوی عہدوں ، منصبوں ، رسمی شوکتوں کے منصوبوں اور دولت کے ذخیروں سے غلبہ نہیں پا سکتے۔‘‘(۱۱)