حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا إن الہدي والسمت والقصد جزء من ستۃ وعشرین جزء امن النبوۃ۔ رسول کا طریقہ وسیرت اور میانہ روی نبوت کا چھبیسواں جزء ہیں ۔ غرض یہ کہ اعتدال ومیانہ روی اس امت کا امتیازی وصف ہے۔ ا سلام کی فکری تاریخ میں جو نظریہ بھی وصف اعتدال سے محروم ہوا وہ جادۂ مستقیم سے منحرف کہلایا اور جس نظریہ نے اعتدال کا دامن تھاما وہ راہ حق پر گامزن نظرآیا۔اعتدال فکر ونظر کا تسلسل قرآن کریم کے مطابق ’’اعتدال‘‘ چوں کہ اس امت کاامتیازی وصف ہے، اس لیے ابتدا سے لے کر آج تک سطح زمین پر ایسے نفوس ہمیشہ اپنی موجودگی درج کراتے رہے ہیں کہ جن کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں اعتدال کی واضح جھلک نظرآئی۔ ان کا پیش کردہ ہر ایک نظریہ اور ان کے ذریعہ متعارف شدہ ہر ایک موقف وصف اعتدال سے متصف رہا ہے اوراس طرح اسلام کی ان عظیم شخصیات نے امت مسلمہ کی فکری تاریخ میں اعتدال فکر ونظر کا ایسا تسلسل قائم رکھا ہے جو کبھی کسی بھی طرح کے خلا سے آشنا نہیں ہوا۔ بلکہ اعتدال فکرونظر کا یہ تسلسل بھی اس امت کی ایک امتیازی صفت ہے کہ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں کچھ اس طرح بیان فرمایا: یحمل ہذا العلم من کل خلف عُدولُہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین، وتأویل الجاہلین۔ ’’ اس علم دین کو ہر آنے والی نسل میں سے ارباب عدل لیں گے جو اس سے ، حدسے گذر جانے والوں کی تحریف، باطل پرست لوگوں کے کذب اور جاہلوں کی تاویل دور کریں گے۔‘‘ خوارج نے جب افراط وتفریط سے کام لیا تو صحابہ وتابعین نے وصف اعتدال سے ان کا مقابلہ کیا۔ معتزلہ ومرجیۂ نے جب غلو وتقضیر کا دامن تھاماتو اشاعرہ وماتریدیہ نے اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے اہل سنت والجماعت کے موقف کو واضح کردیا غرض یہ کہ خلفائے راشد ین وصحابہ کرامؓ کے عہد سے لے کر دور حاضر تک کی تاریخ ہر زمانے میں ایک ایسے طبقے یا ایسی شخصیات کی موجودگی پر شاہد عدل رہی ہے جنھوں نے اپنے فکر ونظر کے اعتدال سے باطل نظریات کا مقابلہ کیااور حق کو حق پرستوں کے سامنے عیاں کردیا۔ اتنا ضرور ہے کہ اعتدال کی صورت ہر دور میں کچھ مختلف رہی ہے؛ لیکن اس کے حقیقی معنی ’’الخیار والأعلی من کل شئی ‘‘ ہمیشہ باقی رہے ہیں ۔