حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ مولانا محمد طیب صاحبؒ اور مسئلہ اجتہاد پروفیسر الطاف احمد اعظمی ہمدرد یونیورسٹی، دھلی اجتہاد کا مسئلہ تقریباً ہر دور میں امت کے اربابِ فکرو نظر کے درمیان بحث و تحقیق کا موضوع رہا ہے۔ اس باب میں اب دو مختلف مکتبِ فکر وجود میں آچکے ہیں ۔ ایک مکتب فکر اس بات کا قائل ہے کہ اجتہاد ہر دور میں ضروری ہے۔ اجتہاد سے اس کی مراد اجتہادِ مطلق مستقل ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اور اس کے مختلف ادارات کے احوال و مسائل برابر بدلتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بدلتے رہیں گے اس لئے کسی ایک دور کا اجتہاد اور اس پر اس دور کے علماء و فقہاء کا اجماع کافی نہیں ہے۔ اس مکتب فکر کے سب سے بڑے حامی علامہ ابن حزمؒ اور امام ابن تیمیہؒ تھے۔ موخرالذکر نے، جو حنبلی مسلک رکھتے تھے، تیرہویں صدی عیسوی کے اوائل میں اسلامی قانون سازی میں حرفِ آخر (Finalily) کے تصور کی مخالفت کی اور علامہ ابن حزمؒ کی طرح فقہ حنفی کے اصولِ قیاس و اجماع (analogy and consensus) کو رد کر دیا۔(۱) اس کے برخلاف دوسرے مکتب فکر کا خیال ہے کہ چوتھی صدی یعنی فقہ کے دبستانِ اربعہ کی تشکیل و تدوین کے بعد اجتہادِ مطلق مستقل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہاں ، اگر اشد ضرورت داعی ہو تو اس سے کم تر درجے کے اجتہاد کو ائمۂ فقہ کے مقرر کردہ اصول و قواعد کی روشنی میں روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔ اس اجتہاد کا مطلب ائمہ فقہ کے مستخرجہ جزئیات میں ترجیح انتخاب ہے نہ کہ ان جزئیات سے صرف نظر کرکے بالکل نئے