حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کوشش تذکیر و اصلاح ہے۔ چنانچہ رقم طراز ہیں : ’’تبلیغ اسلام کے معنی پشتینی مسلمانوں کو عباداتی رنگ کے کچھ احکام پہنچا دینے اور انہیں وابستہ کر لینے کے نہیں ہیں کہ جس کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ فریضۂ تبلیغ ادا ہوگیا یا ارباب تبلیغ فرائض دعوت سے سبکدوش ہوگئے۔ مجھے اس انداز کی کسی دعوت خاص کی ضرورت سے اگرچہ انکار نہیں لیکن اسے فریضہ تبلیغ سے سبکدوشی سمجھ لیا جانا قرآن کے اصول و تبلیغ کی روشنی میں یقینا صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہ جزوی تبلیغ، تذکیر و اصلاح وغیرہ کے عنوانات سے یاد کی جا سکتی ہے مگر عرف شریعت کے لحاظ سے اسے تبلیغ نہیں کہا جاسکتا اور توسعاً اگر کہا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ تبلیغ احکام کہا جاسکتا ہے (بشرطیکہ احکام رسائل پہنچائے جائیں ) تبلیغ اسلام نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ عرفِ شریعت میں تبلیغ (درحقیقت اسلام پہونچانے اور اسلامی برادری کے وسیع کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس لئے تبلیغ اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے اسلام کا پیغام پہونچانے کا نام ہے۔(۲)انسانی سعادت کی بنیاد قرآن و احادیث کی روشنی میں مصنف علیہ الرحمہ سے انسانی سعادت و کامیابی کی بنیاد دو چیزوں ، صلاح و اصلاح کو قرار دیا ہے یعنی انسان خود صالح بنے اور دوسروں کو صالح بنانے کی سعی و جہد کرے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی سعادت کا دارومدار دو چیزوں پر ہے۔ صلاح اور اصلاح یعنی خود صالح بننا اور دوسروں کو صالح بنانا یا خود کمال پیدا کرکے دوسروں کو باکمال کردینا جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات محض لازمی اور ذاتی نفع پر قناعت نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کو شعری بنایا گیا ہے کہ ایک سے دوسرے تک پہونچے۔ (۳)دعوتی پروگرام کی اجمالی تعیین قرآن سے دعوت کی اہمیت اور آداب اور اس کے مقامات کی تعیین مصنف نے آیت کریمہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْ (النحل)سے کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’اس آیت میں دعوتی پروگرام پھر دعوت الی اللہ کے انواع و اقسام اور ان کے رنگ ڈھنگ اور پھر دعوت دہندوں کے مخصوص احوال اور اوصاف پر خصوصی اور گہری روشنی ڈالی ہے اور ضمنی طور پر مدعوین کے خاص اوصاف کی طرف بھی کچھ ارشاد فرمایا ہے جس کا اجمالی خاکہ یہ ہے کہ : ۱-دعوتی پروگرام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مدعوین تک پہونچنے کی صلاحیت ہو۔