حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ہتھیاروں کے ساتھ آپ نے دعوت دین کا کام کیا لیکن دعوت ا س قدر موثر نہ ہو سکی۔ لیکن مدینہ میں اگر جنگ بدر کے بعد ہی سے دعوت پھلنے پھولنے لگی۔ پھر اس امت کو دعوت دین کے ساتھ ساتھ اقامت دین کا فریضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ رسول اکرمؐ اور انبیاء کرام کی بعثت اسی لئے ہوئی تھی کہ وہ اللہ کے دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کردیں ۔ لیظھرہ علی الدین کلہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں الاسلام یعلوا ولا یعلیٰ اسلام کو غالب کرنے کا کام امت محمدیہؐ ہی کے سپرد ہے۔ پھر فتنہ کو ختم کرنے اور دعوت کے پھلنے پھولنے اور اسے انسانی قلوب کو بلا روک ٹوک قبول کرنے کے لئے ماحول سازگار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے بھی جہاد کی ضرورت ہے۔ وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ و یکون الدین کلہ للّٰہ۔ دعوت دین کے لئے تلوار کی اہمیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہؒ رقم طراز ہیں : ’’پس دین کا قیام کتاب ہادی اور حدید ناصر یعنی تلوار کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ رب قدیر نے اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے: ’’پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ رب قدیر کی رضا جوئی کے لئے قرآن اور تلوار دونوں کو باہم مجتمع کرنے کی جدو جہد کرے اور اس جدوجہد میں اللہ سے مدد مانگے۔ اس طرح قرآن اور تلوار کو باہم مجتمع کرنا دعوت دین کے لئے ضروری قرار پاتا ہے۔(۲۳)دعوت دین کی راہ میں آزمائش ناگزیر ہے حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ دعوت دین کی راہ میں آزمائش کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مکی زندگی میں ابتلاء و آزمائش بزدلی اور کم ہمتی نہ تھی بلکہ ایک بلند نصب العین اور اعلیٰ دین کا ثبوت اپنی ثابت قدی سے پیش کرتا ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں : ’’اعلیٰ ترین نصب العین کی خاطر ماریں کھانا، پیٹا جانا، مصائب و آلام کا پہاڑا سر پر لے کر اف نہ کرنا اور جان و مال کی قربانی دینا بلاشبہ ہجوم و اقدام اور حملہ تھا جو تیغ و سناں کے حملوں سے کہیں زیادہ سخت اور شدید تھا۔ تیغ و تفنگ کے حملوں میں یا حملہ آور ایک دم ختم ہوجاتا ہے یا مد مقابل کو ختم کر ڈالتا ہے یا دونوں ختم ہوجاتے ہیں لیکن اس معنوی حملہ میں خون اور زخم کا سوال نہیں بلکہ روحوں اور دلوں کے انقلاب کا سوال