حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تک نصاریٰ کو ملا۔ اور عصر سے مغر ب تک امت مسلمہ کے حق میں آیا گویا دنیا کی یہی تین قومیں آخری ہیں اور انھیں سے دنیا کی آخری تاریخ وابستہ ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ کسی دائرے کا خاتم ہی اس دائرے کی اصل بھی ہوتا ہے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے انہی مقامات کو اصل کی حیثیت سے چنا اور ان کی قسم کھا کر انسان کی جامعیت وفضیلت پر استدلال فرمایا۔ رہایہ کی دنیا کے آخری حصہ کو تین عالمی مرکزوں کی ضرورت کیوں تھی؟ دنیا کی آخری قوموں کو انھیں تین مقامات سے نشوونما دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور پھر ان تینوں میں امت محمدیہؐ کو فوقیت وفضیلت کیوں دی گئی اس پر مبسوط گفتگو کچھ اس طرح رقم ہوئی۔ تین فرق ہیں بنی اسرائیل اور اہل اسلام میں (۱) بنی اسرائیل میں نبوت و ملوکیت عالمی انداز کی نہ تھی۔ (۲) دونوں کے حلقے اور دائرے عام حالات میں الگ الگ تھے۔ (۳) اسلام میں منصب ِ اقتدار کو بنی اسرائیل کی طرح کسی خاص خاندان کی وراثت قرار نہیں دیا گیا بلکہ انتخاب اصلح کا اصول رکھا گیا۔ اور اس کی جھلک ’’خلافت راشدہ‘‘ کی شکل میں سامنے ہے۔عالمی دین کے تین بنیادی عناصر (۱) عبادت ودیانت (۲)سیاست ونظام اجتماعیت (۳)عسکریت وفوجی قوت ، عبادت کو مقصد حیات بنادیا گیا، سیاست وحکومت کو نظام عبادت کے لئے وسیلہ کی حیثیت دی گئی، تاکہ دین داخلی فتنوں پردازوں سے محفوظ رہے، عسکریت وفوجی قوت کو سرحدات کی حفاظت کے لئے رکھا گیا، تاکہ بیرونی دشمن اور دین کے مخالف نظام میں خلل نہ ڈال سکیں ۔ ان تینوں عناصر کے لئے تین مراکز کی ضرورت : (۱) عنصرعبادت، امن وسکون، ذہنی یکسوئی خلوت پسندی وغیرہ چاہتی ہے۔ (۲)عنصر سیاست ، سیاست وحکمرانی، ہمہ وقت جوڑ توڑ ، داروگر، سزا وتعزیر، جنگ پسندی، ہنگامہ آرائی، وغیرہ چـاہتی (۳) عنصر عسکریت، فوج کشی، نقل وحرکت، رعب نمائی، دہشت انگیزی، سرحدات پر نظر، آمادگیٔ جنگ وپیکار، وغیرہ چاہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں متضاد عناصر ایک مرکز میں جمع نہیں رہ سکتے تھے۔ اس لئے حق تعالیٰ نے ان کے تین ہی مرکز ی مقامات کو عالمگیر انداز سے حسب مناسبتِ مقام پوری دنیا کے لئے وضع فرمائے۔ مرکز دین وعبادت مکہ کو بنایا ۔ مرکز سیاست وشوکت ، قدس شریف کو قراردیا، مرکز تحفظ وعسکریت طور سیناء کو رکھا۔ ان تینوں عناصر کی اجتماعیت کے بغیر نظام دنیا کی ویرانی لاریب یقینی ہے۔ اس لئے حق تعالیٰ کی