حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلام ؒ اور اعتدال فکرو نظر مولانا مفتی یاسرندیم وہ اقلیم خلوص کے شہر یار، کاروان خطاب وموعظت کے سالار، قلزم حکمت کے منارہ ضوبار اور علم وتقویٰ ورشد وہدایت کی سنہری لڑی کے ایسے گوہر آب دار تھے جو اس کرۂ ارض پر صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں منارۂ نور بن جاتے ہیں ؛ لیکن اپنے جانے کے بعد ایسا عمیق خلا چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے بعد کی نسلیں اس کو پُرکرنے سے قاصر رہتی ہیں ۔ وہ اپنی تحریر کی شوکت، خاندان کی وجاہت، اپنے دل کی آفاقی وسعت، اپنے مزاج کی بے نظیر شرافت اور اپنی نظر وفکر کے بے مثال اعتدال کے حوالے سے ایک ایسی عظیم شخصیت تھے کہ جن کو بجاطور پر، مدینۂ علم دیوبند کی طاق زریں کے ہزاروں بجھے ہوئے چراغوں کی قطار میں ایک ایسا آخری اور تنہا چراغ کہاجاسکتا ہے کہ جس کے گل ہوجانے سے تمام وابستگان دیوبند کے دلوں پر مہیب اندھیرا محیط ہو کر رہ گیاتھا۔ حضرت حکیم الاسلام نوراللہ مرقدہٗ ہی کی ذات گرامی ہے کہ جس نے قرآن وسنت کی دلنشیں تفہم کی، شریعت وطریقت کے حسین امتزاج سے پردہ کشائی کی، اسلام کی فکری تاریخ کے تسلسل سے امت کو روشناس کرایا، علوم ولی اللہی کی حسین تشریح کی، حکمت قاسمیہ کی ترجمانی کی کہ جس کے آپ واحد وارث وامین تھے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ آپؒ نے علمائے دیوبند کے فکری ونظری اعتدال کو وہ عروج بخشا کہ تمام وابستگانِ ’’قاسمیت ودیوبندیت‘‘ کو اپنے اہل سنت والجماعت ہونے کا یقین محکم ہوگیا ۔ آپ نے اپنی زبان وقلم سے مسلک دیوبند کے اعتدال اور جامعیت کو جس طرح واضح کیا وہ ہم پر ایک عظیم احسان ہے۔ کتنے ہی چلتے پھرتے ذی نفس ایسے ہیں جنہوں نے اپنے شوق کے کانوں سے اس موسیقی آمیز آواز کو سناہے جو اپنے اندر اسرار شریعت اور حکمت قاسمیہ کے بے پناہ لطائف لیے گھنٹوں گونجتی رہتی تھی اور اپنے سامعین کو سحرمیں جکڑلیتی تھی۔ وہ اپنے کرانگیز تکلّم سے اعتدال وجامعیت کا اس انداز سے درس دیتے کہ سامعین بے اختیار