حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سے پوچھیں کہ وہ کس حد تک ان سے الگ ہیں اور کس حد تک شریکِ عقیدہ وعمل ہیں ۔ مشترک حصے کو ’’اساس‘‘ قرار دے کر بقیہ کے لیے اگر اس میں کسی حجت کے سبب توافق نہ ہوسکے حدود متعین کی جائیں جس سے کم سے کم منافرتِ باہمی اور تعصبات کی آگ دھیمی پڑجائے اور عوامی سطح کی اشتعال انگیزیاں کسی حد تک اعتدال پر آجائیں اور ایک دوسرے سے قریب ہو کر کسی باحجت گفت وشنید کا راستہ پڑجائے۔ ‘‘اعتدال کی ضرورت حضرت حکیم الاسلامؒ نے پوری زندگی اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ جس فکری اعتدال کی تعلیم دی ہے، آج اس کے تجدید واحیاء کی ضرورت ہے۔ اختلاف وانتشار کے اس دور میں آج امت مسلمہ کئی کئی پرسنل لاؤں ، جمعیتوں ، مشاورتوں اور تنظیموں میں تقسیم ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم یہ کوشش کریں کہ اگر ہمارا کسی جماعت کے ساتھ فروعی مسائل میں اختلاف ہے تو اس کو دور کیا جائے، ہم جو ایک ہی مکتب فکر سے وابستہ ہیں ، ایک ہی جماعت کی طرف اپنا انتساب کرتے ہیں ، حدیث وفقہ کے باب میں ایک ہی سند سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی درسگاہ یا اس کے زیرسایہ پروان چڑھے دیگر اداروں کے فیض یافتہ ہیں ، افراط وتفریط کا شکار ہیں اور اختلاف انتشار ہماری صفوں میں سرایت کر چکا ہے۔ آج سرزمین دیوبند نے جو کبھی ہماری وحدت کی علم برداری تھی ہمیں اس شخصیت کو یاد کرنے کی دعوت دی ہے جس نے اس اتحاد کو جلا بخشی تھی، جو اس اتحاد ہی کی خاطر قربان ہوا تھا اور جس نے اپنے فکری اعتدال کی بدولت ’’جماعت دیوبند‘‘ کو افراط وتفریط سے محفوظ رکھا۔ آج اس عظیم شخصیت کے احسان کا تھوڑا سا بدلہ صرف اسی صورت میں ادا ہوسکتا ہے کہ وہ ’’اعتدال فکر ونظر‘‘ جو قرآن وسنت سے نکل کر اسلاف امت سے ہوتا ہوا، ’’فکر ولی اللہی‘‘ کی تعبیر، ’’حکمت قاسمیہ‘‘ کی تشریح، ’’علوم انوریہ‘‘ کی تفہیم اور ’’طریقت تھانویہ‘‘ کے تزکیہ وتربیت کے اضافے کے بعد حضرت حکیم الاسلامؒ کی زبانی ہم تک پہنچا ہے، اس کا احیاء وتجدید ہو اور ہم اپنے تمام مسائل اسی ’’فکری اعتدال‘‘ کی روشنی میں طے کریں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین ……v……