حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بریلویت اور حضرت حکیم الاسلامؒ علمائے دیوبند اور علمائے بریلی کے درمیان اختلافات نے عوام الناس کو دوفرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ردّونکیر اور جواب وجواب الجواب نے اس دوری کو مزید بڑھادیا۔ مناظروں اور مباحثوں نے اس اختلاف میں شدت پیدا کردی۔ اس سے قطع نظر کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، دونوں ہی طرف کے علماء کی جانب سے اختلاف امت کو اتحاد میں بدلنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں ۔ اس بات پر شاید ہی کبھی غور ہوا ہو کہ یہ اختلافات حقیقی ہیں یا غلط فہمیوں کا نتیجہ۔ لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ نے اس نازک اور حسّاس مسئلے میں بھی نقطۂ اعتدال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ آپ نے اختلافات کو غلط فہمیوں سے تعبیر کرکے پورے قضیے کی روح ہی نکال دی، پھر جس خوش اسلوبی، عمدہ بیانی اور مصالحانہ انداز سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا ہے وہ ’’راہِ اعتدال‘‘ میں آپ کی کوششوں پر شاہد عدل ہے۔ آپ کی مندرجہ ذیل عبارت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ مناظروں اور مجادلوں سے بچتے ہوے اتحاد واتفاق کی خاطر کی جانے والی تمام کوششوں میں علمائے دیوبند اپنے موروثی ’’فکری اعتدال‘‘ کے ساتھ حصہ دار ہوں اور اختلاف کی اس لعنت سے امت کو نجات دلائیں ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کم و بیش مخلصین بھی ہوتے ہیں لیکن افتراق کی نحوست سے ہر ایک کی خوبی سے دوسرا محروم ہے ساتھ ہی اس بناء پر بھی ہے کہ بریلوی ہوں یا دیوبندی تمام بنیادی باتوں ، اقرارِ توحید، عظمتِ نبوت، عظمتِ صحابہؓ،حنفیت، طریقت، سلاسل طریقت، اولیاء اللہ سے انسلاک سلسلۂ بیعت وارشاد، عقیدت ومحبتِ اہل اللہ وغیرہ میں اشتراک کے باوجود اس قسم کے مزعومہ ، بلکہ بتکلف آوردہ جزئیات کے ذریعہ افتراق بلکہ عناد آمیز فرقت اور بکرّات ومرّات اس کا احیاء وتجدید جہاں پوری قوم کا ضعف اور آزار ہے وہیں وہ اعداء اللہ اور اعدائِ دین کے لیے سببِ تضحیک واستہزاء بھی بنا ہوا ہے جس سے پوری قوم کے وقار اور عزت پر اثر پڑ رہا ہے۔ آج عوامی مناظروں کے چیلنج تو دیئے جاتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں عوام کو خواص پر مسلط تو کیا جارہا ہے جس سے عوامی سطح پر فتنہ ابھرتا اور نکھرتاجارہا ہے، اور نتیجہ میں عوام دین سے بیزار ہی ہوتے چلے جارہے ہیں جنہیں اہلِ وطن کے خلاف اشتعال دلاکر اکسا دیا جاتا ہے، لیکن یہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے تھا کہ قوم کی مجموعی عزت وآبرو کی خاطر چند سنجیدہ علماء ان لوگوں کو بلائیں جن پر انہیں اعتراضات ہیں اور خود انہیں