حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
انتقال ہوا۔ اگست ۸۳ء میں مدراس کے اجلاس عام میں نئے صدر کے بطور مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ منتخب ہوئے، ۲۰۰۰ء میں ان کی وفات کے بعد فقیہ وقت حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صدر بنے ، انکی مدت صدارت مختصر رہی، دو سال کے بعد ہی حیدرآباد کے اجلاس عام میں موجودہ صدر حضرت مولانا محمد رابع ندوی زید مجدہم کی سربراہی طے پائی جو اب تک جاری ہے۔ عالم ربانی حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ کی وفات ۱۹۹۱ء کے بعد حضرت مولانا سید نظام الدین (امیر شریعت بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ) بحیثیت جنرل سکریٹری اس متحدہ تنظْیم کی قیادت کو اپنے تجربات، دوراندیشیوں اور دیگر عہدے دارانِ بورڈ کے مشوروں سے پوری ذمہ داری سے بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ اس طرح ملک کے مسلمانوں کیلئے ان کے معاشرتی اور عائلی قوانین پر عمل آوری اور کسی طرح کی تبدیلی قبول نہ کرنے کی علامت یہ آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ عمل میں آیا، جس کی تحریک دارالعلوم دیوبند سے شروع ہوئی اور مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب قدس سرہٗ کی صدارت میں باضابطہ ایک تنظیم کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی ابتداء کے وقت بمبئی میں جو آل انڈیا کنونشن منعقد ہوا اور جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور مؤقر تنظیموں کے علاوہ ملک کے علماء و فضلاء، و دانشوران شریک ہوئے، حضرت حکیم الاسلام ؒ نے اسلامی قوانین کی حقانیت اور اس کی اہمیت و افادات پر مشتمل جو خطبۂ صدارت پیش فرمایا تھا اس کے چند صفحات قارئین کی نذر ہیں جن میں واضح طور پر ’’لاتبدیل لکلمٰت اللہ‘‘ کی ابدیت اور اس کی تشریح نمایاں ہے۔مسلم پرسنل لاء پر حضرت حکیم الاسلامؒ کاپہلا خطبہ الحمد للّٰہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذین اصطفٰی۔ و بعد: حضراتِ گرامی قدر! اس عظیم نمائندہ اجتماع کے لئے جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر اور مؤقر تنظیموں کے علماء و فضلاء اور ملک کے تمام دانشور جمع ہیں ، صدارت کسی ایسی بڑی اور نمایاں شخصیت کے سپرد ہونی چاہئے تھی جو اس عظیم اجتماع کے شایانِ شان اور اس کے لئے مزید عظمتوں کا باعث ہوتی، اس کے برخلاف ایک ایسے شخص کے سپرد کردی گئی جو جسم و روح و ظاہر و باطن دونوں کے لحاظ سے کمزور اور قلیل البضاعت ہے اور جتنی بضاعت ہے وہ بھی مزجات ہے۔