حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کڑک و گرج رکھتا تا، انہیں اسباب کی بنا پر اسلام پر اعتراض کرنے والوں نے بھی انہیں کو اسلام کے ترجمان کی حیثیت سے خطاب کیا، اپنے شکوک و شبہات اور اعتراضات انہیں کے سامنے پیش کئے اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات و روایات سے محبت رکھنے والوں ان کو روشن و تابناک دیکھنے کی تمنا رکھنے والوں کی نگاہیں بھی انہیں کی طرف اٹھتی تھیں جب اسلام پر اور اس کی تعلیمات و روایات پر کسی طرف سے کوئی حرف آتا تھا۔ حضرت حکیم الاسلامؒتو اس ادارہ کے سربراہ ہی تھے اس لئے قدرتی طور پر اس طرح کے سوالات ان کے سامنے پیش کئے جاتے تھے۔ خود حضرت حکیم الاسلامؒ اپنی ذہنی و طبعی ساخت و پرداخت اور ایک عظیم علمی سلسلۃ الذہب سے وابستہ ہونے کی حیثیت اور ذہن و مزاج کے لحاظ سے انہیں علماء کے گروہ میں شامل تھے، جنہوں نے کچھ ہی دنوں پہلے عیسائیت کے دہاڑتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھا تھا، آریوں کی یورشوں اور بدزبانیوں کا سد باب کیا تھا، قادیانیوں کے طائر فکر و خیال کے پر نوچ کر ان کی قوت پرواز چھین لی تھی، انہیں اسباب کی وجہ سے جب وہ ملک میں اصلاحی و تبلیغی دورے کرتے تھے تو ان سے ہر طرح کے لوگ ملتے تھے اور اپنے اشکالات اور شکوک و شبہات پیش کرتے تھے۔ ان شکوک و شبہات، اعتراضات و اشکالات کو دور کرنا وہ اپنا مذہبی و دینی فریضہ تصور کرتے تھے اور اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اور وہ قلم ہاتھ میں اٹھا لیتے تھے۔ عام طور پر حضرت حکیم الاسلامؒ کی تصانیف کا یہی پس منظر ہے۔ میں نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی تصانیف کا تعارف کراتے ہوئے ان کے پس منظر بتانے کی بھی کوشش کی ہے تاکہ کتاب کے مباحث کو اس سے سمجھنے میں سہولت اور مدد ملے اور کتابوں کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے، میرے سامنے حضرت حکیم الاسلامؒ کی جو تصانیف ہیں انہیں پر اظہارِ خیال کیا ہے اگر ان کی اہم تصانیف کا ذکر اس مضمون میں نہیں ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ مجھے وہ کتابیں دستیاب نہیں ہوئیں اور تادمِ تحریرمجھے نہیں مل سکیں ۔اجتہاد و تقلید ہندوستان میں تقلید و عدم تقلید کی بحث ایک صدی سے چلی آرہی ہے۔ اس مسئلے پر چھوٹی بڑی کتابیں لاتعداد ہیں ، مباحثے و مناظرے بھی بڑی تعداد میں ہوئے ہیں جو بالعموم چند فروعی مسائل تک محدود رہے ۔ اس ماحول اور بحث و مباحثہ نے تعلیم و تعلم کے طریقہ کو بھی ایک خاص رنگ میں رنگ دیا، احادیث کے اسباق میں قرأۃ خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، رکعاتِ تراویح کی تعداد کے مسئلے پر اساتذہ دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں اور طلبہ کے ذہن میں ان مسئلوں کے سارے پہلوئوں کو اتنی تفصیل سے جاگزیں کردیتے ہیں کہ ذہین طلبہ میں ان مسائل کے دلائل دونوں طرح کی حدیثوں کے درمیان تطبیق ، احادیث