حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
قبول اور اکارت ہے اور یہی کسی مذہب کے حق و باطل کے پہچاننے کا بھی معیار ہیں ، کیوں کہ اساسی عقائد ہر مذہب میں گنے چنے چند ہی ہوتے ہیں ، لمبا چوڑا قصہ نہیں ہوتا جس کی تحقیق دشوار ہو؛ اس لئے کسی دین کے سمجھنے یا قبول کرنے کا مختصر راستہ اس کے عقائد ہی کا دیکھنا ہے کہ وہ مخالف عقل تو نہیں ہیں ، نیز صاحب شریعت تک ان کی سند بھی متصل ہے یا نہیں ؟ اس لئے کم سے کم یہ ناگزیر اور ضروری ہے کہ عقائد اور ایمان میں ایک ماننے والے کو بصیرت حاصل ہو اور وہ دین اور شریعت پر خواہ اصول کا حصہ ہو یا کلیات کا، سمجھ بوجھ کر جھکے اور ان پر دلائل اور حقیقت شناسی کے ساتھ جمے، اگر عقائد کا معاملہ محض سنے سنائے پر مبنی ہو، خود اپنی تحقیق یا سمجھ بوجھ کو اس میں دخل نہ ہو تو اسے صورتِ ایمان تو کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقت ایمان باور نہیں کیا جاسکتا، اسی بناء پر محقق علماء میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا ہوا ہے کہ ایمان تقلیدی جس میں حجت و برہان اور بصیرت کا دخل نہ ہو بلکہ محض باپ دادا سے سنی سنائی ایک نقل ہو معتبر بھی ہے یا نہیں ؟ ایک جماعت ادھر گئی ہے کہ ایمان تقلیدی معتبر بھی نہیں جب تک کہ وہ دلائل و براہین سے تحقیقی نہ بن جائے۔ اسی بناء پر قرآنِ حکیم نے دین و ایمان کے بارے میں تدبر اور تفکر کی دعوت دی ہے، جس کی جیتی جاگتی تصویر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا وجودِ باجود اور ان کا مثالی ایمان ہے جو صاحب شریعت کے سامنے حاضر رہ کر بھی اپنے ایمان کو تحقیقی بنا کر ہی دل میں جگہ دئیے ہوئے تھے، قرآنِ حکیم نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا : ادْعُوْا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے اور اللہ پاک ہے اور میں نہیں شریک بنانے والوں میں ۔ پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اولیت کے ساتھ اور ان کے مابعد کے لوگوں کے بارے میں تبعیت کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا : وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیَاتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۔ او ر وہ لوگ کہ جب ان کو سمجھائیے ان کے رب کی باتیں ، نہ پڑیں ان پر بہرے اندھے ہو کر۔ اس کلامِ خداوندی سے ظاہر ہے کہ ایمان خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی، اس کی بنیاد بصیرت و تحقیق پر ہوتی ہے گو اس کے درجات حسب استعداد اور مختلف ہوں جس کا ثمرہ فراستِ ایمانی ہے جو ہر مؤمن کا طغرائے امتیاز ہوتی ہے۔ اسی لئے حدیث نبویBمیں ارشاد فرمایا گیا :