حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
راستہ بند دیکھ کر بغیر کوئی آہٹ پیدا کئے راستہ بدل کر دفتر ِ اہتمام آگئے، حضرت کو اس کا کوئی بھی خیال نہ آیا۔ لیکن ذمہ دار اور نگراں کو معلوم ہوگیا اور پھر اس غفلت کی دربان کو سزا ملی، دربان معافی کی ایک درخواست کے ساتھ حضرت مہتمم صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔پھر حضرت نے کیا کیا؟ ملاحظہ فرمائیے: حضرت اس کی درخواست پر کچھ اس طرح ارقام فرماتے ہیں : ’’مدرسہ کے یہ کارکن یقینا شب بیدار ہوں گے،اسی شب بیداری کی وجہ سے اس وقت اتفاقاً ان کی آنکھ لگ گئی ہوگی اس لیے درگذر کیا جانا چاہیے‘‘(ہکذا) اور پھر حضرت کی اس مروّت کے نتیجے میں وہ دربان بحال ہوگیا۔(۹)جرأت اور قوت ِ فیصلہ کہا جاتاہے کہ حضرت مہتمم صاحبؒ میں جرأت کی کمی تھی، راقم الحروف کے نزدیک یہ آپ پر ایک اتہام ہے اگر جرأت اس کا نام ہے کہ بے موقع اور اپنے بڑے اور بزرگ کے فرق مراتب اور ان کا پاس ولحاظ کئے بغیر بلند آواز سے زبان سے اُول فول نکال دیا جائے، تو اس معنی میں یقینا آپ جری نہیں تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی بے جا جرأت بلکہ ایسی گستاخی اور بے ادبی سے آپ کو اللہ رب العزت نے محفوظ رکھا تھا۔ یہاں جرأت اپنے حقیقی معنی میں تھی یعنی کسی کا حق سلب کئے اور معمولی طور پر بھی کسی کے ساتھ زیادتی کئے بغیر قوت وہمت اور سلیقہ کے ساتھ حق دار کو اس کا حق پہنچانا۔ حضرت مہتمم صاحبؒ کی اس معنی میں جرأت مندی کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں آج سے پچیس چھبیس سال پہلے اساتذہ اور کارکنا ن کی تنخواہیں بے حد قلیل تھیں اور گرانی روز افزوں ۔ اساتذہ وکارکنان کی درخواست پر آپ کا درد منددل متوجہ ہوا، آپ نے ان سب درخواست دہندگان کی درخواست پر کس قدر مناسب انداز میں ایک نہایت ضروری اور صحیح فیصلہ صادر کرتے ہوئے سب کی تنخواہیں دوچند کردیں اور سلیقہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارقام فرماتے ہیں : ’’ بامید منظوری شوریٰ‘‘ حضرت حکیم الاسلام ؒ شب وروز دارالعلوم کے تمام اُمور سے نمٹتے تھے، سب کچھ آپ ہی کو دیکھنا ہوتا تھا ادارہ کی نشیب وفراز اور اس کی دقتوں ،نزاکتوں اور ضرورتوں کوآپ کے سوا کون سمجھ سکتا تھا۔ اس وقت کے بعض اراکینِ شوریٰ نے اعتراض کرنے کی جرأت کی تو حضرت نے یہ ارشاد فرماکر ٹھنڈا کردیا۔ ’’میں نے اس میں یہ بھی تو لکھا ہے ’’بامید ِ منظوری شوریٰ‘‘ آپ کو ناپسند ہوتواسے رد کردیں ، مگر