حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
فکر دارالعلوم کی اشاعت میں حکیم الاسلامؒ کا حصہ مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین محمد و آلہٖ و اصحابہٖ اجمعین۔ ایسی کسی شخصیت پر قلم اٹھانا نسبتًا آسان ہوتا ہے جو بس ایک دو خوبیوں کی مالک یا چند صفات میں ہی امتیاز رکھتی ہو لیکن ایسے افراد میں سے کسی پر کچھ لکھنا جو عبقری صفت اور گوناگوں خصوصیات کے حامل ہوں اور جن کے محاسن بے شمار ہوں جو صفاتِ حمیدہ کا مجموعہ ہوں ان پر لکھنا کاتب کے لئے ایک طرح کا امتحان ہوتا ہے کیوں کہ تمام خصوصیات کا بیان اور شخصیت کے ہر پہلو پر روشنی ڈالنا بالخصوص کسی مقابل میں ممکن نہیں ہوتا اور پھر یہ فیصلہ کرنا کہ ان اوصاف میں سے کسے موضوع بنایا جائے اور کسے چھوڑا جائے حیران و سرگشتہ کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ ایسے ہی جامع صفات اور مجموعۂ کمالات افراد میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی ذاتِ گرامی بھی تھی چنانچہ جب راقم سے آں مخدوم پر کچھ لکھنے کے لئے اصرار کیا گیا تو یہ عاجز سرگشتہ و حیراں ہوگیا اور اس کے سامنے یہ شاعرانہ تخیل ع دامن نگہہ تنگ و گل حسن تو بسیار گل چیں ز تنگیٔ داماں دارد!! حقیقت بن کر کھڑا ہوگیا، کیوں کہ گلِ حسن کی بسیاری پر تنگیٔ داماں کا گلہ کسی اور جگہ استعارہ و کنایہ یا مبالغہ ہو تو ہو مگر حکیم الاسلام نوراللہ مرقدہٗ کی ذات میں تو واقعۃً گلہائے گوناگوں اس طرح پیوست ہوئے تھے کہ ان کا شمار مشکل، مزید برآں یہ کہ آں ممدوح کی شخصیت کا ہر پہلو ’’کرشمہ دامن می کشہ کہ جا اینجا است‘‘