حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وفات میں ایک مرتبہ حاضری کے موقعہ پر آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بوسہ دیا اور اپنے قلب مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ: ’’اس ہاتھ سے ایک عجیب و غریب سکون و سکینت اپنے قلب میں محسوس کرتا ہوں اور اس کے بعد حضرت حکیم الاسلامؒ کے علمی و روحانی فیضان اور عمر و صحت و سلامتی میں برکت کے لئے مستجاب دعائیں دے کر رخصت فرمایا۔شعر و شاعری بلند پایہ مصنف اور خطیب ہونے کے ساتھ آپ قادر الکلام شاعر بھی تھے اور جب کبھی کہنے پر آتے تو چار چار پانچ پانچ سو اشعار پر مشتمل نظمیں کہہ ڈالتے تھے، جس پر آپ کے شعری مجموعے (۱)جنون شباب (۲)عرفان عارف (۳)آنکھ کی کہانی (۴)ارمغا ن دارالعلوم شاہد ہیں ۔اہتمام دارالعلوم دیوبند دارالعلوم کا منصب اہتمام ہمیشہ بڑا باوقار رہا ہے، اس منصب پر جو حضرات رہے ہیں ، وہ اپنے وقت کی یادگار و نابغہ روزگار شخصیتوں میں سے تھے، دارالعلوم کے مہتممین کی فہرست میں حضرت حاجی عابد حسین صاحبؒ، حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ رحمہم اللہ جیسے لوگ ہیں ۔ ان میں حضرت حکیم الاسلامؒ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ دارالعلوم کے مہتمم رہے اور نائب مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ تھے۔ ۱۳۴۳ھ میں حضرت حکیم الاسلامؒ کو آپ کے والد ماجد صاحب کا قائم مقام کر دیا گیا۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ کے انتقال کے بعد حضرت عثمانیؒ مہتمم ہوگئے اور آپ نیابت اہتمام پر رہے، حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کے انتقال ک بعد ۱۳۴۸ھ میں آپ نے منصب اہتمام کو سنبھالا اور تاحیات اس عہدہ کو زینت بخشی۔ اس طرح دارالعلوم دیوبندکے ابتدائی انسٹھ سال میں پانچ مہتممین نے اپنی مخلصانہ عظیم خدمات کے ذریعہ اس مدرسہ عربی کو ملک گیر دارالعلوم کے مقام رفیع تک پہونچایا اور اس کی عمر کے مابعد ساٹھ سال میں تن تنہا حضرت حکیم الاسلامؒ نے بلاشرکت غیرے اس دارالعلوم کو ’’عالمی مرکزی اسلامی یونیورسٹی‘‘ کے بام عروج تک پہونچایا۔ آپ کے دور میں دارالعلوم میں ہر اعتبار سے ترقی ہوئی، عمارات کا طویل سلسلہ قائم ہوا، طبیہ کالج کا قیام عمل میں آیا، مدرسین کا اضافہ ہوا۔