حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اسلوب سے ادب کا ایک نیا نثری باب وَاہوا۔ حکیم الاسلامؒ کے تعلق سے بلامبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنی برجستہ اور فی البدیہہ تقریروں میں تحریر وتصنیف کا علمی رنگ بھردیا۔ جنھیں صاحب تقریر کی زبان سے سینئے تو مکمل معنوی میں تقریر اور اگر انھیں زیب قرطاس کردیاجائے تو مکمل معنوی میں ایک مقالہ اورمضمون۔ یہ وصف اوررنگ اسی وقت اور انہی شخصیات کے یہاں پیدا ہوسکتا ہے جنھیں زبان اور قلم دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہو، وہ دونوں کا شہسوار اور دونوں ہی کا رمز شناس ہو، میں نے حضرت حکیم الاسلامؒ کو خود بھی سناہے اور ان کو سننے والوں سے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے۔ آپ کی زبان شستگی و شائستگی کا نمونہ تھی، ’’نرم دم گفتگو‘‘ آپ کا شعارتھا۔ نہایت نپے تلے جملے،ہر قسم کے حشووزوائد، گنجلک پن سے پاک ، فلسفیانہ مضامین کو بھی اسی سادگی اور پر کاری کے ساتھ بیان کرتے۔ بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ لیکن اس اعتدال کے ساتھ کہ نام کو بھی آپ کی زبان اسلوب میں رکاکت او رغیر سنجیدگی نہیں آتی۔طویل سے طویل تقریروں میں بھی نہ تو تکرار کا گزر ہوتا اور نہ ہی اصل لہجے اور اسلوب میں کوئی فرق پیدا ہوتا۔بس شروع سے اخیر تک دریا کی سی روانی کے ساتھ آپ بولتے چلے جاتے تھے۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں ۔ ’’گھنٹوں بولتے تھے۔ زبان بڑی شگفتہ اور شائستہ کہیں کہیں ظرافت اور مزاح آمیزی ،آواز از اوّل تا آخر یکساں ، نہ زیروبم نہ اتار چڑھائو، مگر ساتھ ہی منطقی استدلال اور فلسفیانہ تشقیق اس لیے تقریر عوام وخواص دونوں کے کام کی‘‘۔عوام کی رعایت علامہ ابن قیم جوزیؒ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عوام کو خطاب کرنے کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مخاطبین کی ضرورت ومصلحت کے تقاضوں کے مطابق خطاب فرماتے تھے۔(وکان یخطب فی کل وقت بما تقتضیہ حاجۃ المخاطبین ومصلحتہم) بسا اوقات ایک بڑا عالم اور لسان خطیب سامعین پر مطلوبہ اثر قائم نہیں کرپاتا۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ موضوع تقریر کے مناسب انتخاب اور اس کے مشمولات کی ترسیل وتفہیم میں زبان واسلوب کے اعتبار سے عام حاضرین کی رعایت نہیں ہوپاتی۔ اس سلسلے میں بہت سی عظیم شخصیات کا نام لیا جاسکتا ہے جو اپنے علم وفن میں نادرئہ روزگار ویکتائے زمانہ تھیں لیکن جہاں تک خطبات کے حوالے سے عوامی سطح پر ان سے استفادہ کا تعلق ہے تواس کا دائرہ نہایت محدود اور مختصر ہی رہا۔ حضرت علیؓ کا قول : حدثوا