حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’تجلّی‘‘ کے ایک مرکزی نقطہ سے جو ظہور میں نہیں ۔ (گویا یہ ایک سسپنس ہے) اس کی عکس ریزی سے مقامات مقدسہ کی تقدیس کا حیران کن فلسفہ جو حکیم الاسلامؒ کی کتاب دل سے ’’مقامات مقدّسہ‘‘ کی شکل میں منصہ شہود پر آیا ہے اس میں انداز بیان کی اس ندرت پر غور کیجئے۔ گفتگو ایک مرکزی نقطہ متوازی زاویۂ خطوط پر شروع ہوکر ایک سے تین، تین سے تین ، تین سے ایک ، تین میں ایک اور پھر ایک سے انفسی، آفاقی، عقلی، حسی، فکری، جدلی، عدلی دلائل اور حقائق ومعارف سے گہربار ہوکر پھی تین کے ہندسے کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اس طرح پوری کتاب ’’تین‘‘ کے عجیب وغریب فلسفہ کے درمیان دائر رہتی ہے۔یہ گفتگو ہے ’’مقامات مقدسہ‘‘ کی جو ۷۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔گفتگو کا مرکزی سفر انجیروزیتون کی چھاؤں ، قدس شریف،مرکزی انوارِ موسوی، طور سیناء کے پہاڑ، مرکز انوار محمدیؐ ’بلدامین‘ سے شروع ہوتا ہے۔ بلحاظ عظمت اور فضیلت ووقعت، انھیں تین کو کیوں منتخب کیاگیا؟ اور پھر انھیں تینوں مقاموں کو انسانی حسن وجمال، فضیلت وبرتری اور سیرت کے کمال پر گواہ کیوں بنایاگیا؟ یا یوں کہئے کہ انسانی ہیکل کا حسن وجمال، کمال واعتدال اور جامعیت کا ادعاء ان تینوں مقامات کی گواہی سے کیسے ثابت ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ حقیقت سامنے رکھئے کہ ان ہی تین مقامات سے تین مقدس ترین شخصیتیں ابھریں ۔ تین وزیتون کی چھاؤں میں آئے ہوئے قدس شریف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات بابرکات نمایاں ہوئی۔ طور سیناء سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تقدس کا درس دیا۔ بلد امین سے خاتم النبیّینؐ کی ذات اقدس کا آفتاب عالم تاب طلوع ہوا۔ مکان سے مکیں اور مکیں سے مکان مراد لیا جانا بقول ابن قیم فصحاء کے کلام میں مروج ہے اور بلاغت کا تسلیم شدہ اصول ہے۔ اس اصول کے مطابق تینوں مقامات سے مراد تینوں مقدس اشخاص ہیں ، جو لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے دعویٰ کی دلیل ہیں ۔ یعنی اگر کوئی انسان کے احسن تقویم کے دعویٰ کی دلیل چاہے تو وہ ان تینوں ہستیوں کی ذات بابرکات کو دیکھ لے۔ تین مقامات مقدسہ کی تین شخصیات مقدسہ کے تاثیر وتصرف سے انھیں تین مقامات سے تین بڑی بڑی قومیں ابھریں ،یہود ونصاریٰ اور مسلمین جو تین آسمانی ملتوں کی پابند اور ملت ابراہیمی کی شارح قومیں ہیں ۔ اور انھیں تینوں کے عروج وزوال سے دنیا کے اس آخری حصہ کی تاریخ وابستہ ہے۔ انھیں اس دنیا میں وقت کتنا دیا گیا۔ اگر ان قوموں کے ظہور سے تاقیام قیامت ایک دن فرض کرلیا جائے تو بصراحت ِ حدیث نبوی ؐ صبح سے زوال تک کا وقت یہود کو دیا گیا۔ جس میں دینی اعتبار سے وہ برسر اقتدار رہے۔ زوال سے عصر