حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اکابر دیوبند کی آخری یاد گار مولانا شمس تبریزندوی عالم اسلام خصوصاً ہندوستانی مسلمان ایک عرصے سے قحط الرجال کی ایسی آزمائش سے دوچار ہیں کہ ہر سال ان کے دینی و ثقافتی، علمی و سیاسی صفوں میں کوئی نہ کوئی کمی محسوس ہوتی ہے اور نمایاں خلا پیدا ہوجاتا ہے جو عرصے تک پُر ہوتا نظر نہیں آتا۔خصوصاً کسی ممتاز عالم اور ربانی شخصیت کا اٹھ جانا ہماری ملت کو داغِ یتیمی و محرومی دے جاتا ہے۔ رسولِ اعظم B نے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث و جانشین بتایا ہے اور ان کی موت کو علمِ دین کا ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ عن عبداللّٰہ بن عمر بن العاص رضی اللّٰہ عنھم قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول انّ اللہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہٗ من العباد ولکن یقبض العلم یقبض العلماء حتّٰی اذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤساء جھالاً فافتوا بغیر علم فضّلو و اضلّو (صحیح بخاری کتاب العلم) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ B کو فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ علم کو یک بارگی نہیں اٹھا لے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں سے نکال لے بلکہ علم کو علماء کی موت کے ذریعے اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہ جائے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے۔ چنانچہ ان سے سوال کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ گذشتہ شوال ۱۴۰۳ھ (جولائی ۱۹۸۳ء) کو بھی ایک ایسا ہی حادثہ پیش آیا جب اکابرِ دیوبند کی آخری