حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ہیں کہ: علمائے دیوبند نے یہ راہِ اعتدال اختیار کی کہ نہ تو اس فنّ احسان (تصوف) سے قطع نظر کر لینا ہی جائز سمجھتے ہیں کہ اسے دماغوں کو ماؤف کردینے والا افیون سمجھ لیں اور نہ ان باطنی احوال کو اسٹیج کی رونق بناتے ہیں کہ اس کے ذریعے اپنی درویشی یا عرفان پناہی کی نمایش کریں ۔ بلکہ شریعت ہی کا ایک باطنی حصہ سمجھ کر باطنی ہی انداز سے باطن کی اصلاح کے لیے صرف کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ان اہل باطن اہل اللہ کی حد درجہ عزت وعظمت دلوں میں لیے ہوے ہیں ۔ البتہ متصوّفہ اور بناوٹی صوفیوں کو ناقابل التفات سمجھتے ہیں جن کے یہاں تصوف کے معنی گیروے کپڑوں یا چند بندھی جڑی رسموں کی نقالی یا نمائشی اچھل کود کے سوا کوئی باطنی کیفیت یا وجد کا نشان نہ ہو ’’الا ماشاء اللہ‘‘۔ غیرمقلدیت نے گذشتہ چند سالوں سے جس طرح سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر امت کا رشتہ اسلاف سے منقطع کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ’’اعتدال فکر ونظر‘‘ رکھنے والے علماء کو سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ امت کے سامنے اجتہاد وتقلید کے سلسلے میں صحیح موقف اس انداز سے بیان کریں کہ نہ امت افتراق وانتشار کا شکار ہو اور نہی اس کا رشتہ ائمہ دین اور علمائے راسخین سے منقطع ہو۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے اس سلسلے میں بھی اپنے فکری اعتدال کی روشنی میں علمائے دیوبند کے موقف کو واضح فرمایا ہے اور ان پر لگائے جانے والے ’’کورانہ تقلید‘‘ کے الزام کا مسکت جواب دیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: پس وہ بلاشبہ مقلد اور فقہ معین کے پابند ہیں مگر اس تقلید میں بھی محقق ہیں جامد نہیں ۔ تقلید ضرور ہے مگر کورانہ نہیں ۔ لیکن اس شان تحقیق کے باوجود بھی وہ اور ان کی پوری علمی ذریت اپنے کو اجتہاد مطلق کا اہل نہیں سمجھتی۔ البتہ فقہ معین کے دائرہ میں رہ کر مسائل کی ترجیح اور ایک ہی دائرہ کی متماثل یا متخالف جزئیات میں سے حسب موقع ومحل اور حسب تقاضائے ظروفِ زمان ومکان، کسی خاص جزئی کے اخذ وترک یا ترجیح وانتخاب کی حد تک وہ اجتہاد کو منقطع بھی نہیں سمجھتے۔ اس لیے ان کا مسلک کورانہ تقلید اور اجتہاد مطلق کے درمیان ہے۔‘‘عقل ونقل حضرت حکیم الاسلامؒ کی حیات کا ایک روشن پہلو ’’مسائل کی عقلی تفہیم‘‘ ہے، یہ ملکہ آپ کو اپنے جدامجد حضرت نانوتویؒ کی ’’حکمت قاسمیہ‘‘ سے ورثے میں ملا ہے۔ آپ نے جس انداز سے حضرت نانوتویؒ کے علوم ومعارف کی ترجمانی کی، اسرار شریعت سے پردہ کشائی کی اور مسائل کی عقلی تشریح کی وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ لیکن یہاں بھی آپ نے فکری اعتدال کو جانے نہیں دیا۔ افراط وتفریط سے بچتے ہوے آپ نے