حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک جامع کمالات شخصیت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحبؒ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اچھی طرح یاد ہے کہ سب سے پہلے حکیم الاسلامؒ کو میں نے شہر مونگیر کے ایک عظیم الشان اجلاس میں دور سے دیکھاجب آپ کرسی پر بیٹھے وعظ کر رہے تھے، وعظ اس قدر دل آویزو دل پذیر تھا کہ پورے مجمع میں کہیں سے کھانسنے کی آواز تک نہیں آرہی تھی، ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ واعظ جادو کر رہا ہے اور پورامجمع ہمہ تن گوش ان کی طرف متوجہ سکتہ کے عالم میں ہے، خود اپنا بھی اس وقت یہی احساس تھا کہ آپ سے بڑھ کر موثر بولنے والی شخصیت دوسری نہیں ہے دو ڈھائی گھنٹہ رات کے دس بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک مسلسل بولتے رہے، لیکن مجمع جب وہاں سے اٹھا تو سب کی زبان پر تھا کہ تقریر جلد ختم ہوگئی، کاش کچھ دیر تک اور حضرت مہتمم صاحبؒ بولتے رہتے، اور ہم لوگ سنتے رہتے، تقریر کا عنوان تھا، یبنی اقم الصلوٰۃ وأمرْ بالمعروف وَانْہَ عن المنکر واصبر علی مااصابک ان ذالک من عزم الامور۔ (لقمان ۲۰) حضرت مہتمم صاحبؒ کی زبان بہت شیریں ، لب و لہجہ بڑا ہی خوشگوار، اور انداز بیان ہلکا پھلکا بہت سلیس و دلنشیں تھا، قرآن پاک کی آیتیں ، احادیث نبوی کے ٹکڑے اور صحابۂ کرامؓ و اولیاء اللہ کی تاریخ واقعات اس طرح تقریر میں برجستہ پڑھتے اور بیان کرتے جاتے کہ سننے والا محو حیرت رہ جاتا، پوری تقریر مربوط مدلل اور ذہن و فکر کو متاثر کرنے والی تھی، اپنا تاثر یہی تھا کہ اس قدر بلیغ، عام فہم اور موثر وعظ کبھی اور سننے میں نہیں آیا، یہ حقیقت ہے کہ آپ جہاں تقریر کرنے گئے چھا گئے، نہ گھن گرج، نہ نشیب و فراز، نہ ہاتھ پائوں کے اشارے، سنجیدہ و متین اور صاف و شستہ انداز، کہا جا سکتا ہے کہ آپ بلاشبہ اپنے دور کے بے مثال واعظ و مقرر اور جاندار خطیب تھے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب تک وہ تقریر ذہن کے گوشوں میں گونج رہی ہے۔