حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے جملہ جملہ کو لے کر اپنے الفاظ و انداز میں نہایت شاندار اور وقیع شرح فرمائی۔ یہ تقریر ’’خطبات حکیم الاسلامؒ‘‘ حضرت حکیم الاسلامؒ جلد۸ میں ’’نصاب تعلیم کی تدوین‘‘ کے عنوان سے مع مذکورہ بالا تفصیلات کے موجو د ہے۔ حکیم الاسلامؒ اپنی تقریر میں ’’صحیح تعلیم‘‘ کی تشریح یوں فرماتے ہیں ۔ ’’صحیح تعلیم سے میری غرض یہ ہے کہ نصابِ تعلیم موزوں ہو، طریقِ تعلیم مؤثر ہو، ذریعۂ تعلیم فطری ہو، اساتذہ کا انتخاب صحیح ہو، نظامِ تعلیم درست ہو۔ اگر کسی قوم میں تعلیم ہی نہ ہو تو ایک بنیادی روگ ہے جس سے کوئی قوم پنپ نہیں سکتی۔ نصاب تعلیم اگر غلط ہو تو ذہن کا سانچہ درست نہیں ہو سکتا، طریقۂ تعلیم اگر غلط ہو تو تعلیم کا پورا اثر ظاہر نہیں ہو سکتا۔‘‘ استاذ قابل نہ ہو تو قابلیت کا دروازہ ہی نہیں کھل سکتا، سب کچھ ہو اور نظم تعلیم درست نہ ہو تو نتائج متوقع نہیں نکل سکتے۔ غرض تعلیم کی صحت کے لئے ان اجزا کا ہونا از بس ضروری اور یہ امور تعلیم کے حق میں بنیادی ہیں ۔‘‘صحیح تعلیم کی بنیاد، نصب العین کا تعین صحیح تعلیم کے یہ عناصر ترکیبی، اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب اس کی اصل بنیاد صحیح ہو، تعلیمی عمارت کی صحت و استواری، بنیاد کی صحت و استواری، درستگی و مستقیمی پر منحصر ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں : ’’لیکن اگر آپ غور فرمائیں تو ان سب بنیادوں کی ایک اور گہری بنیاد ہے کہ اس کی صحت و سقم پر اِن سب امور کی صحت و سقم موقوف ہے اور وہ ہے ’’تعلیم کا نصب العین اور مقصد‘‘ اِس نصب العین کی خوبی و خرابی سے اُن بنیادوں میں خوبی و خرابی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ نصب العین تعلیمی اداروں اور اداروں سے فیض حاصل کرنے والوں کی کامیابی اور ناکامی کی کسوٹی ہے، اسی نصب العین کے لحاظ سے اس ادارہ کے کمال و نقصان کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘نصاب تعلیم کا نصب العین سے تعلق جس ادارہ کا جیسا نصب العین معین ہوگا اس کا نصاب بھی، اُسی کے مطابق ہوگا کیوں کہ نصب العین اور مقصد کو سامنے رکھا جائے گا تو سرکاری اداروں اور دینی مدارس کے درمیان فرق خود بخود ظاہر ہوجائے گا۔ سرکاری تعلیم گاہوں کا مقصد، عام طور پر ملازمت کا حصول ہے تاکہ اس تعلیم کے ذریعہ کلرک، محرر، دفتری کارکن یا سرکاری محکموں کے کل پرزے تیار ہوجائیں ۔