حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دیانت کا وفور ہے اور کسی میں اس کے ساتھ سیاست و نظم اور اجتماعیات کا بھی اعلیٰ شعور ہے، کسی میں ظاہریت کا غلبہ ہے اور کسی میں باطنیت کا، کسی میں تأسی باسوق السلف کا غلبہ ہے اور کسی میں رجحانات سلف کے تتبع و استقراء کا، ظاہر ہے کہ جہاں ظاہریت غالب ہوگی وہاں سب سے بڑا مرجح ظواہر روایت ہوں گی اور جہاں باطنیت کا غلبہ ہوگا وہاں سب سے بڑامرجح بواطن روایت یعنی درایت ہوگی، جس امام کی جو ذہنی خصوصیت ہوگی وہی اس کے اصول استنباط سے چھنے گی اور پھر وہی خصوصیات ان اصولوں کے تحت مستنبط شدہ جزئیات سے مترشح ہوگی اور انہیں خصوصیات کا خاص رنگ بالآخر ان افراد کی تربیت کرے گا جو اس فقہ پر عامل ہوں گے۔ ایک سے زائد امام کی تقلید کرنے والا ہر جگہ متضاد خصوصیات کے مابین متعارض جزئیات کا شکار ہو کر پھر کلیاتی تناقض کا شکار ہوگا، اس تقلید میں دو ذوقی رنگ اپنے تناقض کے ساتھ جمع ہونے کی کوشش کریں گے جس کا لازمی نتیجہ مزاج میں فساد ہوگا اور دو متضاد اثرات کی کشاکش میں گرفتار ہو کر پراگندہ حال بن جائے گا اور اس میں عملی فساد پیدا ہوجائے گا، اس طرح شریعتِ اسلامیہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کی اصل روح اس کے عمل سے ختم ہوجائے گی اور شریعت بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائے گی۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے اس پامال موضوع پر اپنے نکتہ آفریں دماغ اور دقیقہ رس نگاہ سے کام لے کر روایت و درایت کی روشنی میں اتنی لطیف بحث کی ہے کہ عقل اس سے حاصل شدہ نتائج کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہوجاتی ہے۔ اب تک اس مسئلہ پر اردو میں بہت کم ایسی کتابیں وجود میں آئیں جو اپنی متکلمانہ اندازِ بیان میں روایات و آیاتِ قرآنی سے ایسے لطیف نکتے پیدا کرتی ہیں جہاں تک عام اہل علم کے ذہنوں کی رسائی مشکل سے ہوتی ہے۔ پوری کتاب استخراج نتائج کے اس خصوصی پہلو کے لحاظ سے شاہکار ہے۔علم غیب ہندوستانی مسلمانوں میں ایک گروہ ایسا ہے جو اسلامی تعلیمات و روایات میں عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح افراط و تفریط کا شکار ہے، عقائد و مسائل میں یہ افراط و تفریط اس کے ذہن کی پیداوار اور اس کی کم فہمی و کوتاہ علمی کا نتیجہ ہے جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں ان پر ایمان لانے والے تو کم ہی رہے اور اتنی تعداد بھی نہ ہو سکی کہ وہ اپنے پیغمبر کو دشمنوں سے بچا سکیں جب وہ پھانسی پر چڑھانے کے لئے لے جائے جا رہے تھے اور جب یہودیوں نے اپنے خیال کے مطابق پھانسی دیدی تو پھانسی کی لکڑی ساری دنیا کے عیسائیوں کے گلے کا ہار بن گئی۔ صلیب یا کراس جو کہتے ہیں ان کے مذہبی شعار میں داخل ہوگئی ایک طرف