حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ کے خانوادۂ فاروقی سے روابط مولانا عبدالعلی فاروقی دارالعلوم فاروقیہ، کاکوری، لکھنؤ رب کائنات کے اس انعام کی شکر گذاری کے لئے زبان و قلم میں سکت نہیں کہ اس نے ایک ایسے خانوادہ کا فرد بنا کر اس عالمِ رنگ و بو میں بھیجا جہاں علمی و دینی شخصیات سے ربط و تعلق کے لئے خاندانی نسبت ہی کافی تھی اور اب آباء و اجداد کی نسبت سے اس ’’حلال کمائی‘‘ کا کیوں نہ ذکر کروں کہ اس بے سواد راقم الحروف نے گھر بیٹھے ہی وقت کی ایسی ایسی اہم اور جلیل القدر شخصیات کی زیارت اور جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت حاصل کرلی جن کی ایک جھلک پانے کے لئے’’باتوفیق‘‘ لوگوں کو نہ جانے کیسے کیسے پاپڑ بیلنا پڑتے تھے؟ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاء۔ ان مقتدر شخصیات میں ایک نمایاں نام حضرت حکیم الاسلامؒ کا بھی ہے،جن کی زیارت اور بار بار زیارت ’’حد شعور‘‘ میں داخل ہونے سے کتنا پہلے ہوچکی تھی؟ یہ یاد نہیں ! ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ اس وقت بھی ان کا اُجلا اُجلا سراپا، ان کا روشن روشن چہرہ، ان کا نرم نرم لہجہ اور ان کی نسیم برلب گفتگو اتنی اچھی لگتی تھی کہ بے ساختہ ان جیسا بن جانے کی ’’طفلانہ تمنائیں ‘‘ مچلنے لگتی تھیں اور پھر سن شعور تک پہنچنے پر ان تمنائوں نے یہ تعبیر اختیار کرلی کہ اگر’’اجالوں کے سفیر‘‘ مذہب اسلام کو عالم مثال میں جسمانیت عطا کی جائے تو وہ مجسم ہو کر وہی ہوگا جسے ہم ’’حکیم الاسلام‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔‘‘ بلا شبہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ ایک بلند پایہ خطیب تھے۔ بے مثال منتظم تھے، متکلم اسلام تھے، عظیم المرتبت مرشد تھے، سرمایۂ اسلا کے جامع تھے،مقبول ترین استاذ تھے اور اپنے لب و لہجہ، اثر و نفوذ، اخلاق و کردا راور حسنِ ظاہر و باطن کے لحاظ سے ہماری اس زمین پر حق کی ایک چلتی پھرتی، مسکراتی بولتی