حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اگر تم اپنے گھر کی چیز اپنے مخاطبوں کی زبان میں ، مخاطبوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے مخاطبوں کی زبان بھی سیکھنی پڑے گی۔ اس لحاظ سے مدارس دینیہ کے طلبہ کو ملکی سطح پر ہندی اور بین الاقوامی سطح پر انگریزی سے بھی واقف کرایا جاناضروری ہے۔ پھر یہ کہ آج کے دور میں کسی کو مخاطب کرنے اور کسی کے سامنے اپنی بات پیش کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے جو پچھلے انداز سے کافی بدل چکا ہے، لہٰذا ہم صحافت اور تصنیف و تالیف سے بھی دامن کش نہیں ہو سکتے۔ اسی کے ساتھ ہمیں وہ اصطلاحات اور وہ چیزیں بھی معلوم ہونی چاہئیں جن کی راہ سے ہمارے مسائل پر رد وقدح ہوتی ہے، اشکالات و اعتراضات پیش کئے جاتے ہیں ، تاکہ ہم صحیح تجزیہ کرکے اپنے پرانے مسائل، نئے دلائل کے ساتھ پیش کرسکیں ، اس اعتبار سے ہمیں کمیونزم، سوشلزم، صہونیت، عیسائیت، ہندو تو سے بھی واقف ہونا چاہئے۔ مدارسِ دینیہ کے طریقِ تعلیم پر غو کرکے مذکورہ بالا ساری چیزیں نصاب تعلیم میں لائی جانی چاہئیں ۔ نئے دلائل کا چوں کہ طریقِ تعلیم میں بدلا ہوا ہے، اس لئے ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ احقر کے خیال میں حضرت حکیم الاسلامؒ کے جملے ’’مسائل پرانے ہوں اور دلائل نئے ہوں ۔‘‘ اور اپنے گھر کی چیز مخاطبوں کی ز بان میں پیش کرنے‘‘ میں وہ سری باتیں شامل وداخل ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا۔عصری تعلیم گاہوں کا نصاب تعلیم عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہماری عصری درس گاہوں کے تعلیم یافتہ حضرات مدارسِ دینیہ کے نصاب تعلیم کے متعلق، خوا ہی نخواہی، ہدایات و مشورے برابر دیتے رہتے ہیں لیکن خود مسلمانوں کی قائم کردہ، مسلمانوں کی شناخت و پہچان رکھنے والی عصری درس گاہوں ، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم اور ملّی تشخصات کی پابندی کا کیا حال ہے، اس کی طرف توجہ نہیں دیتے جب کہ بہت سی عصری درس گاہوں میں دینیات، اسلامیات، شخصیات کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں ، ان کا نصاب تعلیم، طریقِ تعلیم اور نظامِ تعلیم اِس فکر سے بے نیازی اختیار کئے ہوئے ہے جب کہ مسلمانوں کی گاڑھی کمائی، مسلمانوں کے خون و پسینہ اور مسلمانوں کی محنت و کوشش سے وہ وجود میں آئیں اور فخر کے ساتھ انہیں مسلمانوں کی قائم کردہ درس گاہ کہا جاتا ہے۔ حکیم الاسلامؒ نے ان عصری درس گاہوں کے ذمے داروں کو بھی ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، روداد سفر افغانستان میں لکھتے ہیں :