حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آسودہ ہوتے چلے جاتے ہیں جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا، اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ حکیم الاسلام تھے، خطیب الاسلام تھے، فخر الاماثل تھے، زبدۃ الافاضل تھے، عظیم المرتبت تھے، رفیع المرتبت تھے، رفیع المنزلت تھے، رئیس المتکلمین تھے،سلطان الواعظین تھے، پیر رہرواں تھے، سالار قافلہ تھے، سرخیل طائفہ تھے، یادگار اسلاف تھے، تاج دار خلف تھے،بزروں کی آبرو تھے،خردوں کی آرزو تھے،چشم و چراغ تھے، گل سرسبد چمنستان قاسمی تھے، ملت اسلامیہ کی شان تھے، جماعت علماء کی آن تھے‘‘۔ اللہ رب العزت نے آپ کو اتنے اوصاف عالیہ سے نوازا تھا اور آپ کی ذات بابرکات میں اتنے کمالات ودیعت فرمادئیے تھے کہ ہر خطاب آپ پر جچتا تھا اور ہر لقب آپ کی کلاہ افتخار میں نگینے کی طرح جڑتا تھا۔ کہتے تھے: بخت اگر رسا شود دست دہد سبوئے خوش از نگہ سمن بری لالہ رخ، نکوئے خوش باغ و بہار ماندید یعنی کہ جنت النعیم روئے خوش است و خوئے خوش و بوئے خوش و گلوئے خوشدرس و تدریس فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور درس نظامی کی مختلف کتابیں پڑھائیں ، تدریسی زمانہ ۱۳۳۷ھ سے ۱۳۴۳ھ تک رہا، مشکوٰۃ شریف عرصہ تک پڑھائی، اس کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابیں بھی گاہے بگاہے آپ کے ذمہ رہیں ، حضرت مولانا فخر الدین صاحبؒ کے انتقال کے بعد کچھ دنوں تک آپ نے بخاری شریف کا درس دیا مگر ضعف و پیری کثرت مشاغل اور کثرت اسفار کی وجہ سے مستقل اس کا درس دینا آپ کے لئے دشوار تھا، جس کی وجہ سے آپ نے بخاری شریف کی تدریس سے سبک دوشی کرلی، حجۃ اللہ البالغہ سے آپ کو خصوصی شغف تھا، اس کتاب کو آپ نے ہمیشہ پڑھایا اور اخیر میں بھی اس کا درس دیتے رہے۔بیعت و خلافت ۱۳۳۹ھ میں حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت ہوئے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی طرف رجوع کیا اور تربیت حاصل کی اور ۱۳۵۰ھ میں حکیم الامت مجد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے اجازت و خلافت سے سرفراز کئے گئے، تاریخ و سلوک و تصوف میں یہ منفرد سعادت کبریٰ حضرت حکیم الاسلامؒ کو مشیت ربانی نے عطا فرمائی کہ ان کے مرشد حضرت حکیم الامتؒ نے مرض