حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ مولانا خورشید انورصاحب جامعہ مظہر العلوم، بنارس ہر دور کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، جس سے اس دور کا تقریباً ہر فرد کم و بیش ضرور متاثر ہوتا ہے، انسان کے افکار، نظریات پر اس کی گہری چھاپ ہوتی ہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کے احساسات کی دنیا اپنے گرد و پیش کی فضا کے زیر اثر آباد ہوتی ہے، اس لئے اس دور کو مخاطب بنانے، اپنی جانب متوجہ کرنے اور اس کے افکار و خیالات پر اثر انداز ہونے کے لئے اس مزاج کا بھرپور لحاظ کرنا از بس ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر اس دور کے ذہن و فکر کے رخ کا موڑنا اور اسے صحیح سمت عطا کرنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ ’’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’اگر بنی آدم کے مزاجوں اور ذہنیتوں کی رعایت ملحوظ خاطر نہ ہوتی تو صرف احکام الٰہی کا پہنچا دیا جانا کافی سمجھا جاتا، استدلال کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی، چہ جائے کہ استدلال کی انواع و اقسام پر روشنی ڈالی جاتی، پس جب کہ انسانوں کے داعی اول حق جل مجدہٗ نے اپنے مخاطبوں کی رعایت فرمائی تو اس آیت کا منشاء صاف واضح ہوا کہ تمام مدعیان دین کا فرض ہے کہ وہ رعایت طبائع کے ماتحت مخاطب کی ذہنیتوں کا اندازہ کرکے تبلیغ کا آغاز کریں ورنہ بلا رعایت طبائع ان کی دعوت و تبلیغ مؤثر نہیں ہوگی۔‘‘ (۱) یہی وجہ ہے کہ جب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنے ماحول کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ آج لوگوں میں عقلیت کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور عمومی طور پر ہر شخص نقل و عقل کے آئینے میں دیکھنے کے خواہاں ہے تو انہیں اس سیلاب بلاخیز کے سد باب کی فکر دامن گیر ہوئی اور ضروری سمجھا گیا کہ