حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اپنے دلوں میں ایک عجیب تبدیلی محسوس کرتے اور حکیم الاسلام کی حکمت سے لبریز تقریر دِل پذیرسے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ انہوں نے اپنے رشحات قلم سے اعتدال نظر وفکر کی سنہری لڑی میں جس طرح موتی پروئے ہیں ، ان کی چمک حکیم الاسلام کی تحریریں پڑھنے والے کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ افراط وتفریط اور غلو وتقصیر کے درمیان اعتدال ومیانہ روی کی حدّفاصل کی نشاندہی کردیتی ہے۔ غرض یہ کہ آپ ؒ نے علوم ولی اللہی جس کے آپ امین تھے حکمت قاسمیہ جس کے آپ وارث تھے، معارف انوریہ جس کے آپ حامل تھے اور طریقت تھانویہ جس کے آپ نائب تھے کے امتزاج سے ایک ایسا آمیختہ آنے والی نسلوں کو پیش کیا ہے کہ جس کو اعتدال فکر ونظر کے علاوہ کوئی دوسرا عنوان نہیں دیا جاسکتا۔اعتدال قرآن وسنت کی نظر میں اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا، متوازن ہونا اسی کے ہم معنی لفظ قرآن کریم میں استعمال ہواہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْْ أُمَّۃً وَسَطاً ( اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا) وَسَطْ کے معنی ائمہ لغت نے ’’الخیار والأعتدال من کل شيء‘‘ بیان کیے ہیں ۔ علامہ زمخشریؒ نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’وَسَطاً‘‘ کے معنی یوں لکھے ہیں وسطاً أي أعدلہا وأخیرہا۔ اعتدال کے ایک معنی ہیں ’’ کسی چیز کا بہترین حصہ یا پہلو‘‘ جیسا کہ بعض اصحاب معاجم نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ہوالخیار والأعلی من کل شئ وہیں اس کے ایک دوسرے مشہور معنی بھی ہیں کہ اعتدال اوروسطیت کہتے ہیں دو متضاد یا مقابل پہلوئوں اور نظریوں کے بیچ کا راستہ بایں طور کہ ایک پہلو دوسرے پر غالب نہ آئے، بلکہ دونوں پہلوئوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہوئے اس طرح عمل کیا جائے کہ نہ افراط کااحساس ہو اور نہ تفریط کا، نہ غلو کی آمیزش ہو اور نہ تقصیر کی ۔ ربانیت وانسانیت ، روحانیت ومادیت ، اخرویت ودینویت، انفرادیت واجتماعیت اور وحی وعقل کے درمیان انسان اس طرح توازن قائم کرے کہ نہ رہبانیت کا اس پر الزام آئے اور نہ مادہ پرستی کی بو۔ وصف اعتدال کی اسی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے بہ طور انعام واحسان مذکورہ آیت میں امت مسلمہ کو معتدل امت کالقب دیا اور اعتدال کو انسانی شرف وفضیلت کا معیار قرار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے مواقع پر اعتدال اور میانہ روی کی دعا مانگی ہے۔ ایک روایت میں آپؐ نے اعتدال کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : القصدَ القصدَتبلُغوا ’’اعتدال اختیار کرو منزل مقصود پر پہنچ جائو گے۔‘‘ ابن عباسؓ روایت