حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یوں تو حلقۂ دیوبند کے سربراہ اور شارح و ترجمان ہونے کی حیثیت سے انہوں نے داخلی فتنوں پر بھی قلم اٹھایا ہے اور جن گروہوں کی فکر میں ایک درجہ انحراف پایا جاتا تھا ان پر بھی نصح کے ساتھ رد فرمایا ہے، چنانچہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی فکر کے بارے میں کلیدی کتاب وہ ہے جو آپ نے دیوبند کے مزاج و مذاق اور اس مسلک و مشرب کے اعتدال اور میانہ روی کی نسبت سے لکھی ہے اور واقعہ ہے کہ اس موضوع پر قلم اٹھانا آپؒ ہی کا حق تھا، کیوں کہ فکر دیوبند آپ کی روح میں اس طرح رچ اور بس گئی تھی جیسے گلاب میں اس کی رنگت اور موتیا میں اس کی خوشبو، اس لئے کوئی شبہ نہیں کہ آپؒ فکر قاسمی کے سب سے بڑے نقیب و ترجمان تھے اور زندگی بھر اس ترجمانی کا حق ادا کرتے رہے۔لیکن آپؒ کی زیادہ توجہ اپنے ان دونوں بزرگوں کے مزاج کے مطابق بیرونی فتنوں کی طرف رہی، آپؒ نے فتنہ قادیانیت کی رد میں بھی کوششیں فرمائی ہیں اور خود پنجاب میں اس موضوع پر مؤثر خطابات فرمائے ہیں ، جب مسلم پرسنل لاء کے خلاف حکومت ہند نے بال و پر نکالنے شروع کئے اور مغرب زدہ مسلمانوں نے بھی شریعت کے خلاف علم بغات بلند کیا، تو آپؒ نے اس کا بھرپور مقابلہ کیا، اس لئے آپ کی زیادہ تر تالیفات دعوت و اصلاح اور اسلام کی حقانیت کے ثابت کرنے سے متعلق ہیں ، دین حق کو عقل و استدلال کی قوت کے ساتھ سمجھانا اور مسلمانوں کو بصیرت و شعور پر مبنی ایمان سے ہم کنار کرنا آپ کی فکر و نظر اور جہد و عمل کا خاص ہدف تھا، حضرت حکیم الاسلامؒ کے فکر و مزاج اور علمی و دعوتی مذاق پر اس تحریر سے روشنی پڑتی ہے جو آپؒ نے حضرت نانوتویؒ کے علوم کی تسہیل کے لئے ’’مجلس معارف القرآن‘‘ کی تاسیس کے پس منظر میں لکھی ہے، اس تحریر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے : دین عقیدہ و عمل کے مجموعہ کا نام ہے، عقیدہ سے عمل کا وجود ہوتا ہے اور عمل سے عقیدہ کا رسوخ ہوتا ہے جیسے درخت کے بیج سے شاخوں اور برگ و بار کا وجود ہوتا ہے اور پھر شاخیں جوں جوں پھیلتی اور بڑھتی ہیں جڑ کا رسوخ اور اندرونی پھیلائو بڑھتا جاتا ہے، مجموعۂ عقائد کا نام ایمان ہے اور مجموعۂ عمل کا نام اسلام اور ان دونوں کے مجموعہ کا نام دین ہے، ایمان تخم کی طرح دل کی گہرائیوں میں مخفی رہتا ہے، جسے عقل و بصیرت کی آنکھ دیکھتی ہے اور اسلام برگ و بار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا ہوتا ہے جو سر کی آنکھ سے نظر آتا ہے۔ حدیث نبویB میں اس حقیقت کو اس طرح واشگاف فرمایا گیا ہے کہ الایمان سروالاسلام علانیۃ ایمان (دل میں ) چھپی ہوئی چیز ہے اور اسلام (ہاتھ پیر پر) کھلی ہوئی چیز ہے۔ ایمانی عقائد اعمال کے رد و قبول کا بھی معیار ہیں کہ ان کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی رد، ناقابل