حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یعنی اہل سنت والجماعت کے نظریات سے متصادم تھے، تاہم ان کا شمار مسلمانوں میں کیا گیا ہے جیسے معتزلہ، خوارج، روافض کے بعض گروہ، ان دونوں طرح کے مخالفین کا مقابلہ علماء حق کرتے رہے ہیں ، البتہ بعض حضرات کی زیادہ توجہ داخلی اختلافات کی طرف رہی تاکہ امت کو صحیح فکر و عمل پر قائم رکھا جائے اور اس میں کوئی انحراف نہ آنے پائے اور بعض حضرات کی زیادہ توجہ بیرونی فتنوں پر رہی کیوں کہ بیرونی فتنوں کا مقابلہ درحقیقت دین حق اور اسلام کا دفاع ہے اور امت کو ارتداد و ضلال سے بچانا ہے۔ ہندوستان میں جن شخصیتوں نے اس دوسرے محاذ پر کام کیا ہے، ان میں نمایاں مقام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ہے، شاہ صاحبؒ نے یوں تو روافض اور اہل بدعت پر بھی رد کیا ہے اور تقلید کے مسئلہ میں افراط و تفریط پر بھی قلم اٹھایا ہے، لیکن ان کی اصل کاوش بیرونی حملوں سے مدافعت کی رہی ہے، شاہ صاحبؒ نے محسوس کیا کہ اب جو دور آرہا ہے وہ عقلیت پرستی کا دور ہوگا، اس میں شریعت کے ہر حکم کو عقل کی ترازو میں تولنے اور حکمت و مصلحت کی کسوٹی پر کسنے کی کوشش کی جائے گی، اسی پس منظر میں انہوں نے ’حجۃ اللہ البالغہ‘ جیسی شہرہ آفاق کتاب تالیف فرمائی اور اس میں عقائد وعبادات سے لے کر معاشرت و معاملات، معاشی نظام اور جرم و سزا وغیرہ تک، احکام شرعی کے باہمی ارتباط، عقل و حکمت سے ان کی ہم آہنگی، انسانی فطرت اور ضرورت سے ان کی مطابقت اور ان کے مادی و روحانی فوائد پر تفصیل سے روشنی ڈالی، اس طرح مغرب کی طرف سے اسلام پر جو یلغار ہونے والی تھی گویا قبل از وقت اس کے مقابلہ کے لئے ہتھیار تیار کئے گئے، شاہ صاحبؒ کے بعد جس شخصیت نے اس کام کو آگے بڑھایا، ان میں بہت ہی نمایاں ترین نام حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کا ہے، انہوں نے آریہ سماجی اور عیسائی فتنے کے مقابلہ پر خصوصی توجہ دی اور اپنی زیادہ تر کاوشیں مسلمانوں کو ان فتنوں سے بچانے میں صرف کیں ، شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور حضرت نانوتویؒ کا ایک مشترکہ مزاج یہ بھی رہا ہے کہ انہوں نے اہل سنت والجماعت کے فروعی اختلاف میں نسبتاً کا پہلو اختیار کیا اور اسلام کی مدافعت اور اس کی فکری تائید و تقویت کو اصل موضوع بنایا۔ پھر ماضی قریب میں جو شخصیت ولی اللہی افکار اور قاسمی علوم کی امین اور شارح و ترجمان رہی ہے، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کا نام نامی سر فہرست ہے، وہ واقعی اقبال کے اس شعر کے مصداق تھے۔ ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم بزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن