حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یہ امانت جب آپ کے ہاتھوں آئی تو پون صدی کے طویل اور صبر آزما شبانہ روز جد وجہد، خداداد اہلیت وصلاحیت اخلاص ودیانت اوروالہانہ جہد وعمل کے ساتھ آپؒ نے اس مدرسہ علم کو ایک ایسے جامعہ میں تبدیل کردیا جس کے انواروتجلیات سے ایک عالم جگمگااٹھا۔اور وہ اس امانت سے الگ ہوکر جب دنیا سے رخصت ہوئے تو دیوبند کا وہ سر چشمہ علوم نبوت کا ایک بحرذخار بن کر علم ودانش کی پوری دنیا سے اپنی برتری اور فضیلت کا لوہا منواچکا تھا۔ آپؒ حضرت بانی ِ دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے اور فخرالاسلام مولانا محمد احمدصاحبؒ مہتمم خامس کے صاحب زادے تھے۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے خصوصی تلمیذ حضرت شیخ الہند سے بیعت اور حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔پورے طبقہ کے محبوب ومنظور ِ نظر اورمرکز علمی کی سیادت کے لحاظ سے پوری جماعت کے سیدالطائفہ تھے۔ علمی فیض کے علاوہ بیعت وارشاد کے میدان میں بھی لاکھوں مسترشدین کے روحانی رہبر ورہنماتھے۔ ۱۳۳۷ھ میں درسِ نظامی سے فراغت پائی اور دارالعلوم دیوبند میں درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کیا۔۱۳۴۳ھ سے۱۳۴۸ھ تک دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم رہے ۱۳۴۸ھ سے لے کر آخر وقت تک اس مرکز علم وہدایت کی سیادت آپ کو حاصل رہی۔ نیرنگی زمانہ یا چرخ نیلگوں کی ستم ظریفی کہئے کہ زندگی بھر علم وحکمت کے جس ’’تاج محل‘‘ (دارالعلوم دیوبند)کی آرائش و تزئین میں مصروف رہے۔جب وہ بنائے عظیم جشن صدسالہ کی شکل میں عظمت وترقی کے اوج ِ کمال کوچھونے لگی تو اس عمارت کا یہ ’’شاہجہاں ‘‘ جدائی اور ہجوری کے داغ لیے ہوئے دنیائے رنگ وبوسے الگ ہوگیا جو کچھ پیش آیا گواس کے محرکات ان کے عہد اہتمام کی طرح دیرینہ اورقدیم تھے اور مشیت ِ ایزدی کے سامنے کس کی چلتی ہے۔مگر پھر بھی بے اختیار جی میں آتا ہے کہ کاش یہ صورتِ حال دوایک سال مزید پیش نہ آتی۔اور دارالعلوم دیوبند کا یہ جرنیل ان ہی عظمتوں اور رفعتوں کے ساتھ اور ان ہی قدرشناسیوں کے ساتھ ہم سے رخصت ہوا ہوتا۔جو زندگی بھر ہم سب نے انہی کے لیے مخصوص کررکھی تھیں ۔اور جس کے وہ سزاوار تھے کہ سالار ِ کارواں کی شوکت وسطوت پوری جماعت اور قافلہ کی شان بڑھاتی ہے۔ ولکن ماشاء اﷲ کان ومالم یشا لم یکن۔ حکیم الاسلامؒ نسبی اور روحانی رشتوں کے ساتھ ساتھ علم وحکمت کے لحاظ سے اپنی ذات سے بھی ایک انجمن تھے۔ان کے علوم وتصانیف اور خطبات،حکمت ولی اللٰہی اور معرفت نانوتویؒ کے ابلتے ہوئے سر چشمے ہوتے تھے۔اسراردین کی تشریح اور شریعت کی ترجمانی میں ان کا شمار گنے چنے حکماء اسلام میں ہوسکتا ہے۔ان