حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حالیہ فتنہ کے درمیان دوسری کوتاہیوں کے علاوہ خداوند تعالیٰ کی ایک بہت عظیم نعمت کی بڑی ناقدری ہوئی اور کفرانِ نعمت ہوا ہے۔ اوپر دارالعلوم کے مسلک و مشرب کے تذکرہ میں ذکر آیا کہ اس کے مقاصد میں ہر دنی فتنے کی مدافعت بھی شامل ہے، اس بارے میں مہتمم صاحبؒ کے بس ایک روشن بلکہ عالم آشکارا، کارنامے کا تذکرہ کافی ہوگا، ہندوستان میں جب مسلمانوں کے عائلی قوانین (نکاح، طلاق، میراث وغیرہ) جنہیں مسلم پرسنل لاء کہا جاتا ہے، کے خلاف کچھ نام نہاد مسلمانوں اور روشن خیال سیاست دانوں کی طرف سے، حکومت کی ایماء پر زبردست مہم چلائی گئی اور اس کا پورا خطرہ پیدا ہوا کہ شریعت اسلامیہ کے جن چند قوانین پر عمل کرانے کا مسلمانوں کو ہندوستانی دستور کی رو سے ’حق باقی رہ گیا ہے بس وہ بھی اب چھینا جا نے والا ہے اور پارلیمنٹری جمہوریت جو دراصل اکثریت کا نام ہے کی لاٹھی سے اس کے کچلنے کی تیاریاں آخری مراحل پر ہیں تو سب سے پہلے اس دارالعلوم کو کہ جس کے قیام اور وجود کا اصل باعث ہی دین و شریعت کی حفاظت و بقا ہے، اس کے سربراہ حضرت محمد طیب صاحبؒ بے چین ہوگئے اور پھر بہت سی حکیمانہ تدابیر اختیار کیں جس کا ثمرہ بالآخر تمام ہندی مسلمانوں کے واحدمتفقہ پلیٹ فارم ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘ کی شکل میں برآمد ہوا اور ایسے مختلف افکار و نظریات رکھنے والے افراد پر مشتمل بورڈکی صدارت کے لئے موصوف سے زیادہ موزوں تر اور کوئی شخصیت پورے ہندوستان میں نہ مل سکی، چنانچہ وہی از روز اول تا آخر حیات اس کے صدر رہے ۔ (مرحوم کی اس خصوصیت کا خاص طور پر ذکر، ان کی وفات پردئیے جانے والے بیان میں ہندوستان کے ایک عظیم مفکر نے کیا ہے) آخر میں مرحوم کا وہ آخری مطبوعہ خط پیش کیا جا رہا ہے، جس کے حرف حرف سے، سوزِ دروں دارالعلوم اور اس کے مسلک و جماعت کی حفاظت کے لئے بے قراری اور اس کی زبوں حالی پر دل فگاری ٹپک رہی ہے،معلوم ہوتا ہے کہ وہ خط روشنائی سے نہیں خونِ جگر سے لکھا گیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند صرف ایک مدرسہ نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے، آج کے لادینی دور میں دین کے ہر شعبہ میں امت کی رہنمائی اور عوام امت کی خدمت اس کا نصب العین رہا ہے، آج اس کا کیاحال ہے؟ اور ہم اللہ کے سامنے مسئول ہیں ۔ یہ ہے وہ غم سوز جس سے میرا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے… نہ اپنی ذات کا غم ہے نہ اپنے عزیزوں کا غم بلکہ غم دارالعلوم کا ہے۔ وہ جماعت جو ایک سو سولہ برس تک اوروں کے لئے ہدایت، تقویٰ اور توحید کی علامت تھی بکھر کر رہ گئی ہے، یہی میری بیماری ہے، اس عالم بیچارگی اور بیماری