حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اجلاس صد سالہ کے موقع پر دارالعلوم کی ہمہ گیر خدمات (اور مہتمم صاحبؒ کے ذریعے ہونے والے عمومی طور پر اس کے تعارف اور) خدا داد مقبولیت کی وجہ سے، سارے عالم بالخصوص، ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے آکر جمع ہونے والے انسانوں کا سمندر کہ جس کی نظیر میدانِ عرفات کے علاوہ اور کہیں نہیں دیکھی جاتی بلکہ نہیں دیکھی جاسکتی، جب دیوبند میں ٹھاٹھیں مارنے لگا تو قدرتی بات تھی کہ دارالعلوم کے چندہ میں غیر معمولی رقم جمع ہوئی، اس جمع شدہ رقم کے بارے میں ’’بعض اہل الرائے‘‘ نے تجویز کیا کہ اسے یونٹی ٹرسٹ میں جمع کر دیا جائے (جس کو وہ سمجھتے تھے کہ تجارتی ادارہ ہے اور وہاں جمع شدہ رقم پر تجارتی نفع بھی ملتا ہے جو سود کے شائبہ سے پاک ہوتا ہے) فرمایا دارالعلوم کا موضوع تجارت نہیں ، تعلیم ہے، اس لئے بھی وہاں رقم جمع کرنا مناسب نہیں ، یہ واقعہ نقل کرتے ہوئے راوی آبدیدہ سے ہو کر کہنے گے کہ بھلا ان نزاکتوں کو کون ملحوظ رکھے گا؟ (اس واقعہ کے راوی بھی وہی ثقہ قاسمی فاضل ہیں جن کے حوالے سے اوپر بھی ایک واقعہ گذر چکا ہے) یہ واقعہ جو ہر طرح دارالعلوم اور اس کے مسلک کے محافظ مہتمم کے شایان شان تھا لیکن اس کے کرم فرمائوں کی نظر میں کیا بن گیا؟ اسے جاننے کے لئے دل پر جبر کرکے یہ چند سطریں آپ بھی پڑھ لیجئے، اس وقت بھی بعض ارکان کو یہ اندیشہ تھا کہ مہتمم صاحبؒ کے بعض متعلقین اس تجویز کو اپنے غلط ارادوں کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر چلنے نہیں دیں گے او رمہتمم صاحبؒ کو اس کے لئے استعمال کریں گے۔ افسوس یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا اور نہ صرف یہ کہ اس تجویز کی تکمیل نہیں کی گئی بلکہ اس کی عدم تعمیل کو مقدس شرعی لباس پہنایا گیا۔ اس موقعہ پر امام شافعیؒ کا یہ مشہور شعر نقل کرنا بھی شاید بے محل نہ ہوگا۔ع عین الرضا عین کل عیب کلیلۃ کما ان عین السخط بدی المساریا اہل نظر کے لئے تنہا یہ مثال آئندہ دارالعلوم کا ’رخ اور قبلہ‘ دریافت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے یہ سوال قدرتی ہے کہ مہتمم صاحبؒ کے بعد دارالعلوم کی ظاہری شان و شوکت باقی رہنے بلکہ بڑھ جانے کے باوجود کیا اس کی معنویت بھی اس درجہ قائم رہ سکے گی؟ یہ بات اللہ عالم الغیب کے علاوہ اور کون جانتا یا جان سکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے کہ جو خیرخواہوں کو فکر مند بنائے رکھتا ہے اگر چہ کارسازِ حقیقی نے جس طرح اس کے بانیوں اور اولین معماروں کے اخلاص کی برکت سے اب تک نازک سے نازک ترمواقع پر اس کی حفاظت فرمائی ہے اسی کے فضل و کرم سے امید ہے کہ آئندہ بھی حفاظت فرمائے گا مگر ڈر اس بات سے لگتا ہے کہ