حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
و یکون غلوّ امرھم و نباھۃ شانھم علواً لامر صاحب الملۃ۔(۴) جانشینوں کو ان ہی کے خاندان اور انہیں کے شہر کا ہونا چاہئے کیوں کہ اسی ماحول میں چلنے اور بڑھنے کی وجہ سے ان لوگوں کے اندر (مطلوبہ) عادات اور طریقے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتے ہیں (اس کے بعد بہت بلیغ و تمثیل کے ذریعے فرق واضح کر دیتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ) جس کی آنکھ قدرتی اور پیدائشی طور پر سرمگیں ہو اس کا وہ شخص مقابلہ کہاں کر سکتا ہے کہ جس نے صرف سرمہ لگا لیا ہو اور یہ بات بھی ہے کہ (اسی خاندان کے جانشین کی) حمیت دینی اور حمیت نسبی دونوں ہم آہنگ ہوجاتی ہیں اور (اسی لئے) اس کی ذاتی بڑائی بھی دین کی بڑائی سے مربوط ہوجاتی ہے۔ اشارۂ نبویؐ اور اسی سے پیدا شدہ حکمت ولی اللہی کا ہی غالباً یہ پرتو تھا کہ دارالعلوم کی فکر کے حقیقی نمونہ اور اس کے سچے خیرخواہ اور اکابرؒ نے اصرار کے ساتھ حکیم الاسلامؒ مولانا محمد طیب صاحبؒ کو منصب اہتمام پر فائز کیا تھا چنانچہ جو تجویز بابت تقرری منظور ہوئی اس میں یہ بھی صراحت تھی کہ مولانا موصوف نوجوان، صالح، صاحب علم اور اعلیٰ خاندان اور دارالعلوم کے ساتھ آبائی نسلاً بعد نسل سچی و دلی ہمدردی رکھتے ہیں ۔(۵) یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی شاید بے محل نہ ہوگا کہ تحویلِ قبلہ کی حالیہ مہم کے دوران جن لوگوں نے اپنے ذاتی غور و فکر کے نتیجے میں تبدیلی کو ضروری سمجھا اور اسی لئے اپنا پورا زور سنانِ قلم یا لسانِ ذہن استعمال کرکے صرف کیا ان میں یاتو متکحل تھے یا ایسے تھے جنہیں اس کحل سے مناسبت ہی نہ تھی یا ان کے نزدیک اس سے زیادہ دوسرے مصالح عزیز تھے اور بعض تو ایسے بھی تھے جو اس سے آشنا ہی نہ تھے بلکہ بے گانہ تھے۔ اس لئے اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ اس شورش کے درمیان (حضرت مولانامحمد طیب صاحبؒ کے دادا) حضرت مولانا قاسم صاحب نانونوتویؒ کے بانیٔ دارالعلوم ہونے کی حیثیت کو چیلنج کیا گیا بلکہ ان کی مقدس ذات (نیز ان کے بلند مرتبہ صاحبزادہ، مولانا محمد احمد صاحبؒ) پر تنقیص کی حد تک پہنچنے والی تنقیدوں میں بھی ذرا تامل یا باک نہیں ہوا، مزید برآں بانیٔ دارالعلوم کے مقرر کردہ اصول ہشت گانہ کو آج کے دور کے لئے نہ صرف ناکافی بتایا گیا بلکہ ان کا مذاق تک اڑایا گیا۔ (فالی اللہ المشتکیٰ) یہاں مہتمم صاحبؒ کے فکر دارالعلوم کی حفاظت کے لئے اہتمام کا پتہ دینے والے ایک خاص واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہو رہا ہے لیکن واقعہ سننے سے پہلے اصول ہشت گانہ میں سے وہ اصول ذہن میں تازہ کر لیجئے جس کے اندر کارخانۂ تجارت جیسی مستقل آمدنی کی سبیل، امداد غیبی موقو ف ہونے کا سبب قرار دیتے ہوئے اس سے منع کیا گیا ہے۔