حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
شکل میں بھی شائع اور مقبول ہوا) اس وصف کی سب سے نمایاں مثال اور جیتی جاگتی تصویر بمبئی شہر ہے کہ جہاں حضرتؒ کے حکیمانہ خطابات ہی کے ذریعہ ابتداء ً فضا بدلی اس کے بعد ہی اہل حق کو وہاں پائوں ٹکانے بلکہ اپنی بات کہنے اور باطمینان سنانے کے لئے زمین مل سکی یہی وجہ ہے کہ اہل حق میں جہاں تک اندازہ ہے سب سے زیادہ باشعور لوگ ان ہی کے دست گرفتہ پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی آں محترمؒ نے ’’فکر دارالعلوم‘‘ کی اشاعت و حفاظت کے لئے کیا کیا قدم اٹھائے، آئندہ سطروں میں ان میں سے کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے، سب کا ذکر تو کسی مقالے کا نہیں کتاب کا موضوع ہے اوپر کی سطروں سے نیز دوسرے واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ یہ فکر موصوف کے جسم و روح میں اس طرح پیوست ہو کر رچ بس گئی تھی کہ ان کی ذات ہی ’’مجسم فکر قاسمی‘‘ اور’’سراپا دارالعلوم بن گئی تھی، ان کی وفات پر متعدد اہل علم اور اصحاب فکر و دانش نے جویہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی ذات کو دارالعلوم میں اس طرح گم کر دیا تھا کہ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن نہ رہا تھا (مفہوم) اس میں نہ غلط بیانی ہے نہ مبالغہ بلکہ حقیقت کی صحیح صحیح ترجمانی ہے کیوں کہ وہ جس جگہ گئے اور دنیا کا کون سا اہم حصہ ہے جہاں وہ نہیں گئے؟ کیا امریکہ و یورپ کیا افریقہ و ایشیاء کیا عرب و عجم جہاں وہ گئے فکر دارالعلوم کے ساتھ پہنچے، بلکہ ان کی تنہا ذات گرامی کی بدولت مدرسہ دیوبند مدرسہ سے (دارالعلوم) پھر عظیم جامعہ بنا اور شہروں سے لے کر قصبات و دیہات تک دارالعلوم کی صدا ان کی ہم آواز بن کر اس طرح پہنچی کہ وہاں کے حساس دلوں کی دھڑکن اور ان کی اپنی آواز بن گئی اور ان کی آواز کی طرح ذات بھی دارالعلوم میں اس طور پر سما گئی تھی کہ ان کی ذاتی شہرت اور ان کا اپنا نفع و نقصان، دارالعلوم کا نفع و نقصان بن گیا تھا، اسی لئے ان کے لئے (مہتمم صاحبؒ) کا لفظ وصف نہیں ان کا ذاتی نام بن گیا اور ایسا ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں ، بلکہ اس کے خلاف ہوتا تو حیرت ہوتی کیوں کہ موصوف کی تو آنکھیں ہی اس فکر کے آغوش میں کھلیں اور اسی فکر کے اعلیٰ ترین نمونوں اور مثالی پیکروں کے سائے میں وہ پروان چڑھے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکیم الاسلامؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے وہ حکیمانہ الفاظ، مہتمم صاحب ؒکی ذات میں جسم و قالب بن کر نظر آنے لگتے ہیں جو شاہ صاحب نے مشہور حدیث رسول (B) الائمہ من قریشکی تشریح کرتے ہوئے زیبِ قرطاس کئے ہیں ۔ فرمایا ہے: ان یجعل الخلفاء من بعدہٖ اھل بلدہٖ و عشیرتہٖ الّذین نشوء واعلی تلک العادات السنن و لیس التکحل کاالکحل و یکون الحمیۃ الدینیۃ فیھم مقرونۃ بالحمیۃ النسبیۃ