حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
جیسی ادق و اعلیٰ کتاب کا دورۂ حدیث جیسی اہم جماعت کے طلباء کو جس میں ایک خاصی تعداد ماہر اساتذہ تک کی شامل ہوا کرتی تھی اور پھر بعض طلبہ بھی ایسے جید الاستعداد، کثیر المطالعہ اور وسیع النظر ہوتے تھے کہ ہندوستان کے بہت سے مدارس کے اعلیٰ مدرسین’ شیخ الحدیث‘ کی سند سنبھالنے والے بھی ان کی برابری بمشکل کر سکتے تھے) نہایت کامیابی کے ساتھ درس دیا۔ فکر دارالعلوم کے علمی تقاضوں کے علاوہ و دیگر اوصاف و تقاضے مثلاً نصاب فی الدین، دینی حمیت، اسلاف کی عظمت، فرق باطلہ کا حکیمانہ ردتحمل، حقیقی تصوف (تزکیہ و احسان)مناسبت، تواضع، استغناء وغیرہ، اوصاف تو موصوف میں اس طرح جمع ہوگئے تھے کہ ان کا کٹر سے کٹر دشمن بھی انکار کرنے کی جرأت، آخرۃً جواب دہی کا خطرہ مول لئے بغیر نہیں کر سکتا تھا، اس وجہ سے ان کے مذکورہ اوصاف میں کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ، البتہ صرف تین (تواضع، تصوف اور فرق باطلہ کا حکیمانہ) کے بارے میں اتنا کہے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہورہا ہے کہ کم سے کم ادھر تیس چالیس سال کے اندر ان کے جیسے پایہ کے کسی شخص کے یہاں ، ان کی جیسی تواضع کا تجربہ و مشاہدہ، کسی کو مشکل ہی سے نصیب ہوا ہوگا وہ اپنے چھوٹوں کے چھوٹوں سے بھی اس طرح پیش آتے تھے کہ برابر والے بھی کم ہی پیش آتے ہیں ۔ غرض یہ کہ ان کی جیسی کم سے کم راقم السطور کو تو اور کہیں تواضع نظر نہیں آئی (حالاں کہ سینکڑوں چھوٹے بڑے علماء سے ملنا جلنا ہوا ہے)۔ اسی طبعی تواضع کا یہ اثر تھا کہ ان کے ایک معاصر نے جو عمر میں بھی ان سے کم ہے جب ان سے معافی طلب کی تو ان کی متواضعانہ طبیعت پر سخت بار ہوا اور اس کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا جو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں ، حضرت حکیم الاسلامؒ نے انہیں جواب دیا، آں محترم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ میں نے اپنے چھوٹوں کو بھی خطا وار نہیں سمجھا کہ ان کی زبانی پر معافی کی بات آئے۔ تزکیہ و احسان کی صفت میں امتیاز کی سند کے لئے یہی کافی ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒاپنی جماعت اور اپنے وقت کے سب سے اہم متقی عالم حضرت شیخ الہندؒ کے دست گرفتہ اور اپنے اثر کے سب سے بڑے مصلح اور بے مثال مربی اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلفیۂ مجاز تھے۔ فرق باطلہ کی حکیمانہ تردید میں مرحوم کے حکیمانہ اسلوب کی شہادت کے لئے برصغیر کے مشہور صحافی اور مبصر ماہر القادری صاحب مرحوم کا وہ تبصرہ کافی ہے جس میں ماہر صاحب نے اپنے پشتینی مسلک کٹر بریلویت سے ہٹ کر حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ ہی کی تقریر دل پذیر کے اثر سے صحیح العقیدہ بن جانے کی تفصیل اور دیگر بہت سی مفید باتیں اپنے شہرۂ آفاق ماہنامہ ’’فاران‘‘ کراچی میں تحریر فرمائی تھی (جو بعد میں کتابی