حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
جیسا قحط الرجال بھی نہ تھا اہل علم تک یہ کہتے سنے گئے کہ ہندوستان کے سارے علماء کا مجموعی علم ایک طرف اور تنہا مولانا محمد طیب صاحبؒ کا علم ایک طرف! ظاہر ہے کہ کم سے کم اس وقت یہ قول مبالغہ سے خالی نہ تھا لیکن اس سے بہر حال اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ اہل علم کے نزدیک ممدوح علمی طور پر ممتاز ترین علماء کی صف میں شامل سمجھے جاتے تھے۔ موصوف کے ذوقِ علمی کے تمام دوسرے مذاقوں پر غالب ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دارالعلوم کے اہتمام جیسے اعلیٰ اعزاز و اکرام بلکہ ایک درجے میں راحت و احترام کے منصب پر فائز ہوتے اور تعلیمی شعبے سے منتقل ہونے کے لئے موصوف طبعاً تیار نہ تھے مگر اس فکر کے ایک ہی تقاضہ اکابر کے حکم کی تعمیل اور ان کا احترام سے بادلِ ناخواستہ، مہتمم بننا گوارہ کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ تقریباً دس بارہ سال قبل مجلس شوریٰ کے بہت سے ممتاز اور بااثر ارکان نے حضرت مہتمم صاحبؒ سے ان کے خلف الرشید کو نائب مہتمم بنانے کے لئے جب اجازت چاہی تو موصوف نے اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ خاندانِ قاسمی کا امتیاز علم ہے، نظم نہیں ،یہ واقعہ حالیہ حادثات کے موجب کے طور پر جس واقعے کو بہت نمایاں کیا جاتا ہے اس پر روشنی ڈالنے کے لئے بھی اہل نظر کے واسطے کافی ہے۔ اگر واقعۃً موصوف نے حالیہ زمانے میں ایسی خواہش کا اظہار کیا تھا تو وہ کسی اور جذبے سے نہیں بلکہ دارالعلوم ہی کی خیرخواہی کے تقاضے سے کیا ہوگا (کہ ان کی مثال اس بارے میں خود رہنمائی کرتی ہے اور پھر یہ کہ موصوف کی پوری زندگی دارالعلوم کی سچی خیرخواہی کے جذبات پر شاہد ذی عد ل ہے، مگر ان پر الزام لگانے والوں کی زندگی کا تو شاید بہت محدود عرصے ہی میں اس کی شہادت پیش کرنا بہت مشکل ہوگا)۔ موصوف کے علمی مقام پر سب سے بڑھ کر شہادات، وہ بیانات بھی ہیں جو ان کی حادثۂ وفات پر زبانی یا تحریری، تمام قابلِ ذکر علماء اور دوسرے طبقات کے آئے، ان میں موافق و مخالف سب ہی نے دوسری خوبیوں کے ساتھ علمی بلندی کا بھی اعتراف و اظہار کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ قوی تر دلیل حضرت حکیم الاسلامؒ کے ذوقِ علمی کی یہ کہ اہتمام کے متنوع اور تھکا دینے والے بے پناہ مشاغل نیز دیگر میدانوں میں سرگرم عمل رہنے کے باوجود، ساری عمر موصوف نے علم و مطالعہ سے اپنا رشتہ قائم رکھا، اسی تعلق کا یہ اثر تھا کہ فخر المحدثین حضرت مولاناسید فخر الدین احمدؒ جیسے جلیل القدر محدث کی وفات کے بعد اور اس کے علاوہ بھی دیگر مواقع پر دارالعلوم جیسی ممتاز درسگاہ میں صحیح بخاری