حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اسی طرح چلتا رہے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانۂ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف درجہ، جو سرمایۂ رجوع الی اللہ ہے، ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا۔ جیسا کہ اوپر مسلک دارالعلوم کے بیان کے دوران گزرا ان اصول ہشت گانہ سمیت، مسلک دارالعلوم کی پیروی اور حفاظت دستورِ اساسی کی رو سے تمام ارکان متعلقین دارلعلوم پر فرض قرار دی گئی تو کیا یہ واقعۃً ارکانِ دارالعلوم اور اس کے متعلقین نے یہ فرض ادا کیا؟ سب کو بالخصوص ’ارکان‘ کو (کہ انہوں نے سب سے زیادہ دستور کا ذکر کیا ہے) اپنا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ خود ان پر ہے۔ (فکر دارالعلوم کا بیان ہوجانے کے بعد آئیے) دیکھیں اس ذاتِ گرامی نے دستور مسلک اور دارالعلوم (مع اصول ثمانیہ) کی رعایت و حفاظت کس درجہ کی؟ کہ جس پر دستور کی خلاف ورزی کا بہت زوردار آواز میں الزام لگایا گیا؟ مرحوم کی فکر دارالعلوم کی اشاعت و حفاظت میں حصہ کے جائزے سے پہلے یہ بھی ضروری معلوم ہو رہا ہے کہ دیکھا جائے کہ خود موصوف اس فکر سے کتنے ہم آہنگ تھے اور کس درجہ اس کے مثالی نمونہ بننے کے لائق؟ کہ اس کے بغیر سچ پوچھئے تو نہ ترجمانی کا حق حاصل ہوتا ہے اور نہ بے عملی کی بات میں تاثیر ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے، کیوں کہ لم تقولون مالا تفعلون کبرمقتا عنداللہ…الخ کا تقاضا ہے کہ ایسی صورت میں خداوند تعالی کی رضا کے بجائے شدید ناراضگی حصے میں آئے تو پھر کامیابی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ اس فکر کے پہلے جزو (مسلک) میں سب سے اہم مقام (اس لئے سب سے زیادہ توجہ کا مستحق بھی) علوم نبوت کا اور ان کی تعلیم و تعلم کا بتایا گیا ہے چنانچہ اس بارے میں موافق و مخالف سب ہی متفق ہیں کہ مرحوم کا علمی مقام بہت بلند تھا، واقعہ یہ ہے کہ علم کے بعض شعبوں میں ملک کے خواہ دوسرے علماء امتیاز رکھتے ہوں لیکن مجموعی طور پر، مطالعہ کے تنوع وسعت و عمق میں موصوف کا پایہ اگر سب سے بلند نہیں تو کم از کم یہ بہت بلند تھا اور مشکل علمی مضامین بالخصوص نصوص متعارفہ اور سلف اقوال مختلفہ میں تطبیق دے کر اور ان کی مراد متعین کرکے واضح عام فہم و دلنشیں اور شیریں انداز سے بیان کرنے کے کمال میں اب کوئی حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے بعد ان کا ثانی نہ تھا۔ موصوف کے تبحر اور علمی وسعت کی چھاپ عوام ہی نہیں علماء تک پر کس درجہ کی تھی؟ اس کا اندازہ کرنے کے لئے شاید یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ آج نہیں بلکہ پچیس تیس سال قبل بھی جب کہ آج کل