حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کا سچا نمونہ ہونے کی وجہ سے لکھنے والے کا دامن پکڑتا ہے کہ مجھے نہ چھوڑو۔ اس بنا پر خیال ہوتا کہ ہے کہ اچھا ہوتا کہ اگر برادرِ موصوف ’’تذکرۂ طیب‘‘ کے ہر تذکرہ نگار کے لئے‘ حیات طیب کا ایک گوشہ بطورموضوع مقرر کر دیتے کہ اس طور پر‘ محاسن کے اس گلدستہ کا ایک درجہ میں سراپا اور ان کی سوانح بھی آجاتی جنہیں اب صرف مرحوم کی موئے قلم کے ذریعہ کھنیچی ہوئی تصویر ہی دیکھنے کو مل سکے گی۔ ع سب کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں لیکن جب ایسا نہیں کیا تو راقم نے مرحوم کی زندگی کا وہ پہلو پیش کرنا طے کیا جس پر خیال ہے کہ کسی اور نے (خلاف مصلحت جان کر) قلم نہ اٹھایا ہوگا، حالاں کہ آج بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی، اس پہلو کا سامنے لانا کم سے کم راقم کی نظر میں جتنا زیادہ مناسب بلکہ ضروری ہے اتنا کسی اور پہلو کا نہیں ہے، اسی وجہ سے راقم نے آں محترم کی زندگی کا یہی اہم پہلو (بلکہ کہنا چاہئے کہ اہم کارنامہ) یعنی فکر دارالعلوم کی اشاعت و حفاظت میں حکیم الاسلام کا حصہ پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ (وبیداللہ التوفیق) اس عنوان و موضوع کا قدرتی تقاضہ ہے کہ پہلے ’’دارالعلوم کا فکر‘‘ (جو مجموعہ ہے خاص مسلک، مشرب اور منہج کا) ہو،اس کے بعد ہی حفاظت و بقاء، نیز اشاعت و صیانت کا تذکرہ برمحل قابل اعتناء ہوگا۔ یہاں یہ حقیقت ظاہر کئے بغیر نہیں گذرا جا سکتا کہ فکر دارالعلوم کا یکجا تفصیلی اور جامع تعارف، تحریری شکل میں آج ہمیں اسی کی زبان و قلم سے معلوم ہو سکتا ہے جس کی ساری زندگی اس کی ترجمانی کرتے بلکہ اسی کی فکر میں گھلتے گذری، یعنی وہی شخصیت جو آج کے تذکرے کا موضوع ہے۔ (رحمہ اللّٰہ واسعۃ کاملہ) اس تحریری فکر کا درجہ اعتبار بڑھانے کے لئے تنہا یہ بات کافی ہونی چاہئے کہ ’’مسلک دارالعلوم‘‘ کے عنوان سے یہ دستاویز اس زمانہ میں ہی منظر عام پر آچکی تھی جب کہ ’’دارالعلوم‘‘ کے ارباب بست و کشاد میں اکثریت ایسے حضرات کی تھی جو مسلکِ دارالعلوم، یا فکرِ دارالعلوم سے نہ صرف پورے طور پر آگاہ تھے بلکہ تنہا اسی کو اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان میں اس وقت ایسے تو بہت کم تھے جو اس فکر سے ناواقف یا نامانوس ہوں یا اس پر پورا انشراح نہ ہونے کی وجہ سے فلاحِ ذات و قوم کے لئے دوسری راہوں اور فکروں کی تلاش و تجربات میں مشغولیت کو یا اس فکر سے متوحش ہونے کی بنا پر اس کی مخالفت کو حق و دیانت کا تقاضا سمجھتے رہے ہوں (اور ایسا تو شاید ایک بھی نہ تھا یا اس کی جرأت کر سکتا تھا۔ جو کہ محض دنیاوی مصالح کی خاطر حق سے چشم پوشی یا حق دشمنی پر کمر بستہ ہوجانے میں تامل نہ کرے)