حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بڑھاپا، کہولت ان کے اقوال، افکار، رفتار ، مجالس وہ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔ اب اللہ ان کو احبار امت کی انجمن میں جگہ دے۔ اور یہ ان کی صحبت کبھی منتہیٰ نہ ہو۔ دل بھی چاہتا ہے کہ بس یہی ذکر کرتارہاہوں ۔ کوئی ذکر کرتا ہے تو میں گویا اس کے منھ سے نوالہ چھین لیتا ہوں اور خود بات کرنے لگتا ہوں بار بار خیال ہوتا ہے کہ کہاں کس حال میں ہوں گے نہ قاصد ہے نہ سفیر ہے نہ مرغ نامہ بَر ہے۔ کن کن اخیار وآباء صالحین سے ملاقات ہورہی ہوگی۔ کوئی بے قاعدگی ہوئی بھی ہوگی تو وہ یعفو عن کثیر ہے اور اس کا کثیر تو کل ہی ہے۔سب محو کردے گا۔ کتنی شہادات ان کے لیے ہوں گی۔ جنازہ پر آنے والے شہدا ہی ہیں ۔ کتنوں نے عقیدت سے زندگی میں مصافحہ کیا ہوگا۔ انتم شہداء اﷲ فی الارض۔ کتنوں نے ان کے محققانہ خطاب سے شہادت ِ حق سنی ہوگی۔ اور خود ان کے لیے شہادت دی ہوگی۔ خطہ ہائے ارض میں کون سا مقام ہے جہاں انھوں نے اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور بات نہ کہی ہوگی۔ایشیاء، یوروپ، مغربِ اقصیٰ مشرقِ وسطیٰ سب ان کے اعمال نامہ میں مکتوب ومحفوظ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو صبر دے،اجردے، حادثہ کی اہمیت ناقابل ِ انکار ایسی شخصیت کا فقدان ناقابل ِ تلافی۔ انا ﷲوانا الیہ راجعون۔ ماخوذ ماہ نامہ الرشید صفر،۱۴۰۴ھ (ہفت روزہ خدام الدین لاہور) ……v……