حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
رُکے ہوں گے۔ انابت واستعاذت کی ضرورت ہے۔ یہ خط ختم کرچکا تھا کہ لکھنؤ کے کچھ حضرات اور ایک قاری اسلم نامی تشریف لے آئے۔ دفعتہ نصف صدی قبل کا واقعہ ذہنی اسکرین پر ابھرا۔ میرے حضرت والد صاحبؒ علیل ہوکر شفایاب ہوئے تھے۔ دیوبندسے ایک بڑا مجمع حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ، مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت علامہ ابراہیم صاحبؒ اور حضرت سید اصغر حسین میاں صاحبؒ وغیرہ مزاج پرسی کو تشریف لائے۔ مولانا محمد طیب ۲۵؍ سالہ بھی ساتھ تھے۔ بعد مغرب کا وقت تھا۔ حضرت حکیم صاحبؒ نے فرمایا طیب ایک رکوع سنائو یاد ہے۔ ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ الی آخرہ سنایا۔ سماں بندھ گیا۔ آنکھیں پرُ نم ہوگئیں ۔ میرے کانوں نے یہ خوش لحنی عمر میں پہلی مرتبہ سنی تھی، ساز بھی سوز بھی۔ دل گداز بھی نغمہائے دلکش سحاب اندر سحاب بھی۔ یہ پہلا نقش تھا جو آج بھی تازہ ہے۔ اس کے بعد دیوبند پہنچ کر تو بارہا سنی۔ جہری نمازوں میں بھی اکثر جب وہ ہوتے امامت وہی کرتے۔ جس کا لحن بھی لحن طیبی سے کچھ مشابہ ہوتا۔ میں تاثر لیتا۔اب برسو ں سے اس کی نوبت نہیں آئی تھی کہ کچھ سنتا۔ مولاناؒ کہولت سے گزرکر شیخوخت کی منزل میں آگئے تھے۔ لحنیت اور گلے کے گھنگرو اپنا زیروبم ختم کرچکے تھے۔ پرسوں یہ لکھنوی حضرات اور قاری اسلم ندوی آئے میں نے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ برائے نام کچھ تشابہ تھا یا ذہن نے محسوس کیا قریب تھا کہ دل اور آنکھیں بے قابو ہوجائیں ۔ بندوضبط ٹوٹ جائے۔قراء ت ِ طیب یاد آگئی۔اوپر سے یہ حادثہ سن ہی چکا تھا۔عشیۃ قیل طیب لیس فینا۔ آج وہ نہیں ہیں وہ عصر ختم ہوگیا۔دیوبند کا زمانۂ قیام اپنا قیام، اکابر کا مجمع۔ مولانا محمدطیبؒ کا حسین سراپا۔ان کی لحنیت ،طیبؒ سب کی آنکھ کا تارا تھے۔ ان کی نسبت،حضرت مہتمم سلالہ قاسم الخیراتؒ کے بیٹے ہونا ذاتی جمال وکمال مکارم ،خوش کلامی، خوش خطابی، خوش تعبیری مضامین خوش نوائی لحن۔ لباس وتلبس تک میں گونہ تزئین جمال امتزاج اور رنگ علمی مذاکرہ میں نوالی انداز۔ جمال بھی کمال بھی نوال بھی۔ مگر جلال نہیں (بہ مفہوم عرفی) ورنہ زندگی کے سب پہلو جلالت کے شاہد ِ عدل اور فخامت کے غماز جو بعد میں ایسے نمایاں ہوئے کہ فخر ِ اماثل کہے گئے۔ یہ ہرگز نہ اطراء مادح تھا نہ مبالغہ۔ اللہ ان کی گور کو اپنے انوار سے معمور فرمائے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بعد سے بہ ظاہر مداح ومعتقدین سے زیادہ مجھے ان کے اوصافِ ذکیہ پر اطلاع ہے۔ مجھے بہت سے زمان ومکان واقعات واحوال میں ان سے اور ان کا قرب رہاہے۔ سفر میں حضر میں ، حج میں ۔ ایک ہفتہ ہونے کو آیا۔ ان کا نقشِ جمیل کس کس نوع وجہت سے ابھر کر نہیں آیا۔ ان کی جوانی،