حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بے شمار محاسن ومکارم اور مناقب ومحامد کے ساتھ ان کی طبع لین، علم وفضل سے معمور، سیرت، معاملات ومعاشرت میں ستھرا،بے عیب متوازن کیریکٹر،جدال ومراء سے تنفر،غیر متصادم مزاج۔ ’’(بھائی میں لڑنا نہیں چاہتا لڑنا میری افتاد نہیں )‘‘ اہم امور وحوادث میں ان کی ایسی رواداری کہ بعض اشخاص کو تداہن وتہاون کا شبہ ہوجائے مگر سچ پوچھئے تو وہ مسامحت تھی نہ مداہنت۔ یہ الطاف خداوندی اس تبرِمۃ پر مثال تھے۔ اب کون ہے جو اس کا دعویٰ کرسکے۔ ہاں مگر بشری اقسام کا انفکاک بھی ممکن نہیں ، ممکن کبھی اس سے مامون نہیں ہوسکتا الا القوم الخاسرون اخیر کے چند سال جس ضیق خلجان اور ذہنی انتشار کے گزرے بجز اس کے کیا کہا جاوے کہ وکان امر اللّٰہ قدراً مقدوراً۔ اللہ تعالیٰ ان کو کفارۂ سیئات بنادے۔ یہ ابتلاء ِ عام ہے۔ عوام اور علماء حسب حالات سب ان میں مبتلا ہیں ۔ بقول مولانا ندویؒ مسلمانوں سے اجتماعی کام کی صلاحیت اٹھتی جارہی ہے۔ارتفاقی مزاج کم ہورہاہے۔ کون تبریہ کرسکتاہے۔ الانبیاء اشد بلاء فالامثل۔ مگر اس شخصیت کے خدوخال وجمال محبوبی میں ان کا محسوس ہونا ناگزیر تھا۔ پھر ہوا جو کچھ ہوا۔ اور کہا گیا جو نہ کہنا تھا حق بھی ناحق بھی۔ حدود کے اندر بھی، تجاوز بھی۔ اخلاص سے حق کہاگیا کہنے والا ماجور۔ناحق اور حدود سے متجاوز کہاگیا۔تو اس کی شکایت ہی کیا؎ مانجیٰ اللّٰہ والرسول معاً من لسان الوریٰ فکیف انا اب تعزیتاً آپ کے متعلقین، پسماندگان سے وہی کہتاہوں جو ایک بدوی نے حضرت ابن عباسؓ سے ان کی وفات پر کہا تھا کہ؎ خیرٌ من العباس اجرک بعدہٗ واللّٰہ خیرٌ منک للعباس آپ کو عباسؓ سے بہتر ان کی وفات کا اجر مل گیا۔ اور عباسؓ کو آپ سے بہتر اللہ اور لقاء ِ رب میسر ہوگیا۔ زیادہ موجب تاسف وتالم یہ مضمون ہے۔ اِذا مات العالم ثلمۃ فی الاسلام لایسدہا الا عالم آخر۔ ورنہ ویسے تو؎ نزلنا ساعۃ ثم ارتحلنا کذا لدنیا رجالٌ فارتحلنا قانون ہے۔ اب عالم آخر کہاں کب ، اللہ جانے ۔البتہ اس دعا کی ضرورت ہے؎ قرب الرجال الیٰ دیار الآخرۃ فاجعل الہی خیر عمری اٰخرۃ بڑوں کا اٹھنا حرمان تو ہے ہی پیش آنے والے خطرات کا ارہاض بھی ہے اب تک جانے کتنے فتنے