حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اخیر بیماری میں دیکھا کہ غم و الم نے خون نچوڑ لیا تھا، ذہنی و فکری اذیت نے نڈھال کر دیا تھا، مگر جب بھی کوئی ملنے حاضر ہوتا چہرہ پر وہی بشاشت ہوتی اور مسکراتے ہوئے مزاج پوچھتے، ڈیڑھ ماہ اس طرح گذارا کہ کھانا بالکل نہیں کھایا، مگر چہرہ کی رونق میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا، گفتگو کا وہی انداز رہا جو پہلے تھا، جب قلم لے کر بیٹھتے تو اس کمزوری میں بھی گھنٹوں لکھتے چلے جاتے، گفتگو ہمیشہ علمی دینی فرماتے تھے۔ ایک بار فرمانے لگے ایک حدیث ہے نبی کریم Bفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی رکھی۔ وضع کفہ بین کتفی حتی و جدت بر د أنامِلہٖ بین ثدیی۔ یہ حدیث کہیں آئی ہے کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا حضرت یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں بھی آئی ہے فرمانے لگے اسے نقل کرکے حوالہ بھیج دیں اس کی ضرورت ہے۔ میں سوچتا رہا کہ اتنے دنوں سے بیمار ہیں کھانا بند کر رکھا ہے، خود سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے مگر علم کے ساتھ یہ وابستگی ہے چنانچہ میں نے وہ حدیث نقل کرکے حضرت ؒکے پاس بھیج دی۔ اس لمبی بیماری میں مجھے یاد نہیں کہ خود سے کبھی بیماری یا کمزوری کا شکوہ زبان پر آیا ہو گفتگو ہوتی تو یا کوئی علمی مسئلہ بیان کرتے یا دارالعلوم کی تعلیم کے متعلق پوچھتے کہ تعلیم ہو رہی ہے؟ جواب عرض کیا جاتا حضرت تعلیم جاری ہے فرماتے الحمدللہ مقصد تعلیم وتربیت ہی ہے، اکابر واسلاف کا جو مسلک و مشرب ہے اس میں فرق نہیں آنے دینا چاہئے۔ کبھی کبھی بڑی حسرت کے ساتھ فرماتے کہ اپنی جماعت میں پھوٹ پڑگئی اسے ختم ہونا چاہئے یہ بھی ایک دن فرمایا کہ اختلاف ظاہر ہونے کے بعد تقریریں میں نے تقریباً بند کر دیں ، شرم معلوم ہوتی ہے کہ ان حالات میں دوسرے کو خطاب کروں ، جب اپنے گھر میں اختلاف جاری ہے، ذہن و فکر ہمیشہ بیدار رہا، ایک لمحہ کے لئے بھی غفلت میں نہ پایا گیا موت بھی ایسی ہوئی کہ کسی کو خبر نہیں ہوئی، بات کرتے کرتے، ذرا سانس تیز ہوئی ایک دو منٹ میں اعلیٰ علیین روح پہنچ گئی جنازہ میں اتنا بڑا مجمع ہوا کہ بوڑھے تک یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آج سے پہلے کسی جنازہ میں اتنے آدمی نہیں دیکھے گئے اور نہ کبھی دیوبند میں اتنے بڑے مجمع کا تصور ہو سکتا تھا۔ ……v……