حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سینے پرسے ہزاروں علمی قافلے گذرے اورانھوں نے جابجا علم کے سنگ میل قائم کئے۔آہ اب؎ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے وہ اٹھاون برس سے زیادہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے تھے اور انھوں نے اس دوران دارالعلوم کی جو خدمت کی، جو ترقی دارالعلوم نے ان کی رہنمائی میں کی، اس کی وجہ سے حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اور دارالعلوم دیوبند ایک ہی چیز کے دو نام، دوروپ اور دو نشان بن گئے تھے۔ اوران کی شخصیت کو آج دارالعلوم سے الگ کرکے یا دارالعلوم کو ان کی شخصیت سے جدا کرکے دیکھنا اور جائزہ لینا مشکل ہوگا۔ انھوں نے دارالعلوم کو وہ سب کچھ دیا جو حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کی اولاد اور ان کی روایات اور سیرت کے وارث و امین سے توقع کی جاسکتی تھی، سچ اورصحیح بات یہ ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی تعمیر کی، دونوں نے ایک دوسرے کو عزت و عظمت بخشی، دونوں نے اسلام اور ملت اسلامیہ کا نام روشن کیا ہے۔ حق تعالیٰ ان کو آخرت کی زندگی میں اس کا اجر و ثواب دے اور اس چمنستان قاسمی کو سرسبز و شاداب رکھے ،جس کی خدمت کو حکیم الاسلامؒ نے اپنا نصاب زندگی اور وظیفۂ حیات بنا لیا تھا۔ حکیم الاسلام مولانامحمد طیب صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے ساتویں مہتمم تھے، ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئے، تاریخی نام مظفر الدین تھا۔ وہ حافظ تھے، قاری تھے، عالم تھے، خطیب تھے، صاحب قلم اور صاحب کردار تھے، ان کا پر نور چہرہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی عظمت و کردار کا آئینہ دار تھا۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں مہر و محبت، اخوت و رواداری کی قندیلیں تھیں ۔ ان میں وہ مقناطیسی قوتیں تھیں جس نے ہر مخاطب کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان کی کشادہ پیشانی اسلام کی چودہ سو سالہ عظمت کا روشن مطلع تھی، زبان میں حلاوت، گفتار میں شیرینی، رفتار میں عظمت و جلال، سر پر اونچی باڑھ کی دوپلی ٹوپی، لمبا کرتہ، مغلئی، پاجامہ، کبھی کبھی شیروانی، ہاتھ میں عصائے علم و عمل اس حلیۂ مبارک میں میں نے انھیں دیکھا ہے۔ آپ نے قرآن مجید حفظ کیا۔تجوید کا فن حاصل کیا۔ پھر فارسی، ریاضی سے اور عربی علوم سے دارالعلوم سے فراغت پائی، علم حدیث میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم میں استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں نائب مہتمم اور ۱۹۲۹ء میں حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کے انتقال کے بعد مہتمم بنائے گئے۔ جب آپ مہتمم مقرر ہوئے تو دارالعلوم کے شعبۂ اہتمام میں آٹھ شعبے تھے۔ اب ان کی تعداد ۲۴؍ہوگئی تھی۔ اور بجٹ