حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تفصیل الگ سے ایک مبسوط کتاب کی متقاضی ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۵ء میں جمعیۃ العلماء صوبہ بمبئی کے اجلاس میں ’اسلامی آزادی‘ کے عنوان سے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ: ’’ہندوستان کے مسلمانوں کی داخلی حالت تو علم دین، دیانت، منصب، دولت کے لحاظ سے اس طرح برباد کی گئی مگر خارجی پالیسی اس سے بھی زیادہ برباد کن رہی کیوں کہ یہ ممکن تھا کہ مسلمانوں کے بیرونی تعلقات اس داخلی پالیسی پر کسی وقت اثر اندا زہوتے کیوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق بیرونی دنیائے اسلام سے بھی تھا۔ افغانستان سے لے کر ترکی تک مسلمانوں کی حکومت کا ایک مستقل سلسلہ قائم تھا۔ احتمال تھا کہ وہ باہر ان کے لئے کئی وزن دار آواز اٹھائے یا کسی قسم کی اخلاقی یا مادی مدد دیتے۔ اس لئے پوری دنیائے اسلام کو کمزور کرنے کے لئے تمام ممکن ذرائع استعمال کئے گئے اور ان کے لئے بہت سے ایسے تخم مہیا کئے گئے جن میں وہ مبتلا رہیں ۔ چنانچہ اختلافات وغیرہ کی جو خلیج ملک میں حائل کی گئی وہی پوری دنیائے اسلام کے لئے بھی رائج کی گئی۔ کہیں ایران و افغانستان کا مسئلہ، کہیں ایران و ترکی کا مسئلہ، کہیں ترکی اور عربستان کا مسئلہ، کہیں شام و فلسطین کا مسئلہ، کہیں خلافت اسلامیہ کا مسئلہ۔ اس طرح حکیم الاسلامؒ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کے ارشادات عالیہ آپ کی وسیع النظری اور اسلامی سیاست کی زبوں حالی سے واقفیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ حکیم الاسلامؒ کی ایک کتاب سائنس اور اسلام دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ اس میں مادہ اور روح کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور دل نشیں پیرائے میں اسلام کی حقانیت کو جدید سائنسی ماحول میں ثابت کیا گیا ہے۔ اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کی کتابیں جدید نسل کو اپیل کرتی ہیں ۔ ……v……