حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اذھبا الٰی فرعون انہ طغٰی فقولا لہ قولاً لیناً لعلہ یتذکر او یخشیٰ تم دونوں فرعون کے پاس جائو اس نے سرکشی کی ہے اس سے نرم باتیں کہو شاید وہ یاد کرے اور اللہ سے ڈرے ۔ (۱۹) حکیم الاسلامؒ تجدد دعوت کے عنوان سے تحریر فرماتے ہیں کہ دعوت مسلسل بلاناغہ نہ دی جائے بایں وجہ کہ مخاطب اکتا جائیں گے۔ آپؒ لکھتے ہیں : ’’دعوت و تبلیغ ہر روز اور ہر وقت بلاناغہ نہ کی جائے ورنہ مخاطب اکتا جائیں گے اور آثار باطل ہوجائیں گے بلکہ درمیان میں وقفے اور ناغے دے کر تبلیغ کی جائے تاکہ ان کا شوق ہر روز تازہ بتازہ باقی رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہفتہ میں ہر جمعرات کو وعظ و تذکیر فرمایا کرتے تھے۔ ایک شخص نے عرض کیا اے ابوعبدالرحمن کاش آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرتے تو حضرت ابن مسعود نے فرمایا: خبردار! مجھ کو ہر روز وعظ کہنے میں مانع یہ ہے کہ میں تم کو اکتا دینا نہیں چاہتا۔ میں اسی طرح وعظ میں وقفے کرتا ہوں جس طرح آں حضرت Bہمارے اکتانے کے ڈر سے وقفے فرمایا کرتے تھے۔ حکیم الاسلامؒ امراُدع کی عربیت اور فعل کے خواص کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی دعوت تجدد ثابت کرتے ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں ’’دعوت و تذکیر کا امر اُدع کے صیغہ سے فرمایا گیا ہے جو فعل ہے اور عربیت کے قاعدہ سے فعل تجدد اور حدوث پر دلالت کرتا جو گہ و بے گہ ہو نہ کرد دوام و استمرار پر جو مسلسل اور ہمہ وقت ہو۔‘‘ (۲۰) اس طرح مختلف عنوانات قائم کرکے حکیم الاسلامؒ دعوت کے طریقۂ کار کے مختلف اصولوں کو بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے جسے یہاں رقم کرنا کافی طول طویل کام ہے۔البتہ حکیم الاسلامؒ نے ان اصول و ضوابط کو بیان نہیں کیا جن کے تئیں اکثر داعیانِ کرام غلطیاں کرتے ہیں مثلاً حکمت کے نام پر بے حکمتی، دعوت کو مکمل نہ دے کر کانٹ چھانٹ کر دعوت دینا، غلط راہوں سے غلبہ اسلام اور دعوت دین کا کام کرنا، مداہنت دعوت دین بن کر آزمائش کا تصور وغیرہ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کی وضاحت ناگزیر ہے۔ اس کمی کے باعث یہ کتاب کچھ نامکمل سی لگتی ہے بایں وجہ یہ کتاب داعیان دین اور مبلغین کے لئے مکمل گائڈ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر یہ حقیقت ہے تو حضرت کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کو کام کرنا چاہئے بہت زیادہ ممکن ہے کہ حکیم الاسلامؒ کے نزدیک ایسا کوئی خاکہ رہا ہو لیکن اپنی مصروفیت کے باعث وہ یہ کام نہ کرسکے ہوں ۔