حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
البتہ آپ نے کہیں کہیں اجمالاً اشارہ ضرور کیا ہے مثلاً دعوت دین کی راہ میں حکمت اور حکمت کسی کے لئے کارگر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔ (ایک وہ کامل الاستعداد (طلب ہدایت کی استعداد) طبقہ ہے جن کے قلوب روشن ہوں علم کی صادق طلب اور معرفتِ حق کی سچی تڑپ ان میں بدرجہ اتم موجود ہو اور وہ ہر مدعا میں ایسی پختہ دلیلوں اور حجتوں کے طلب گار رہے ہوں جو یقینی ہوں اور دلوں میں نوریقین پیدا کر سکیں ۔ ظاہر ہے ایسے افراد سے خطاب کی صورت بجز دلائل قطعیہ کے دوسری نہیں ہو سکتی اور اسی کا نام قرآن کی زبان میں حکمت ہے جو آیت ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ میں مذکور ہے۔‘‘ (۲۱) حکیم الاسلامؒ نے یہاں دو باتیں واضح طور پر بیان کی ہیں اولاً حکمت دلائل قطعیہ اور حجۃ ایقانی کو کہتے ہیں جو دلوں میں نور یقین پیدا کر سکے اور مخاطب کو قلبی طور پر قائل کرسکے۔ دوم یہ کہ حکمت کا یہ طریقہ انہیں پر کارگر ہو سکتا ہے جن کے دلوں میں معرفت حق کی سچی تڑپ بدرجہ اتم پائی جائے اور جن کے قلوب روشن ہوں ۔ واقعتا حکمت کا طریقہ ایسے ہی لوگوں پر موثر ہو سکتا ہے یہ اور قرآن و سنت میں حکمت کا یہی مفہوم متعین کیا گیا ہے مگر افسوس مختلف حلقوں اور ارباب دانش کے یہاں حکمت کا الگ مفہوم متعین کر لیا گیا ہے پھر اس پر ستم یہ کہ حکمت کا طریقہ ان دشمنانِ اسلام کے ساتھ اختیار کیا جاتا جو محض طاقت کی زبان سمجھتے ہیں جو الناس علی دین ملوکھمکے مصداق ہیں ۔ آج دعوت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام کچھ اس طرح سے بھی کیا جا رہا ہے کہ دین کے کچھ حصے کو پیش کیا جارہا ہے کچھ چھپا لیا جاتا ہے۔ وہ معرفات جو مخاطب کے مذہب میں بھی معروف ہو ا س کو پیش کرکے دعوت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشرکین کے سامنے ایسی باتیں کہنے سے اجتناب کیا جاتا ہے جس سے ان کے عقیدہ شرک پر ضرب پڑے۔ یہ کوشش کچھ زیادہ ہی کی جاتی ہے کہ کلمہ دعوت کچھ اس طرح سے کانٹ چھانٹ کر پیش کیا جائے جس سے امن و امان باقی رہے۔ آزمائشوں سے گذرنا نہ پڑے۔ دشمن کے مظالم کا سامنا نہ کرے۔ اس طرح کی مانیتا پراپت سیکولر دعوت کو افسوس صد افسوس حکمت کا نام دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ہمیں دین کی دعوت مکمل طور پر دینا چاہئے۔ داعی کو ہرگز یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق کچھ اجزا پیش کرے اور کچھ چھپا لے۔ حالات خواہ کیسے ناسازگار ہوں داعی کو اصل دین مکمل شکل میں پیش کرنا چاہئے۔ اللہ کے دین میں کمی بیشی حالات کے تقاضوں کے تحت اس میں تغیر و تبدل بہت بڑا ظلم ہے۔ ایسے لوگو ں کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوتی ہے۔