حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
و غضب اور انتہائی جوش میں آگئے اور خون کھول جانے سے چہرے تمتما اٹھے۔ پھر شیخ کے کچھ توقف کے بعد ان کی تعریف میں کچھ غیر معمولی اور مبالغہ آمیز جملے کہہ دئے جن سے وہ پہلا اثر زائل ہوکر ایک نیا انبساط و نشاط پیدا ہوگیا۔ اس پر شیخ نے فرمایا کہ تم سمجھے میں نے کیا کہا؟ یہ میں نے تمہیں عملی جواب دیا ہے۔ تم غور کرو کہ میرے چند کلمات نے جو درحقیقت واقعیت لئے ہوئے بھی نہ تھے تم میں اس قدر ہیجان اور انقلاب پیدا کردیا کہ تمہارے چہرے سفید سے سرخ اور سرخ سے سفید ہوگئے۔ تو کیا خدا کا پاک کلام جو حقیقتاً روح حیات ہے بدن اور روح میں کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا کہ آدمی صحت سے مرض اور مرض سے صحت کی طرف لوٹ جائے؟ پس یہ حکمت ہے مگر عملی جو حکمت فطری سے زیادہ موثر ہے‘‘۔(۱۷) دعوت کے لئے مخاطب کے ساتھ شفقت و رحمت کی ضرورت و اہمیت ثابت کرتے ہوئے حکیم الاسلامؒ رقم طراز ہیں : ’’واضح ہوگیا کہ جب تک مبلغ کو اپنے مخاطبوں کے ساتھ شفقت نہ ہو اس کی تبلیغ دلوں میں گھر نہیں کر سکتی اس کا مقتضا یہ ہے کہ مبلغ کی تمام تر ہمت صرف یہی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنا فریضہ تبلیغ اداکرکے بری الذمہ ہوجائے۔ بلکہ اس کے دل میں باپ کی سی شفقت ہونی چاہئے۔ آنحضرتؐ نے اس تبلیغی رحمت وشفقت کو انتہائی حدود تک پہونچا دیا تھا حتی کہ ذات ارحم الراحمین کو یہ کہہ کر روکنے کی نوبت آئی کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ شاید آپ اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالیں گے اس غم میں کہ یہ ایمان کیوں نہیں لائے۔ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلاَّ الْبَلاَغ۔ رسول پر احکام ہدی دینے کے سوا اور کچھ واجب نہیں ۔(۱۸) اسی طرح حکیم الاسلامؒ دعوت دین کے لئے نرمی و رافت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’شفقت لسانی میں قول کی نرمی آتی ہے جو درحقیقت مبلغ کی تبلیغ کا زیور ہے جس سے تبلیغ آراستہ ہو کر محبوب قلوب بن جاتی ہے اور قلوب کو اپنی طرف جذب کر لیتی ہے جیسا کہ اس کے بالمقابل آواز کی کرختگی زبان کی تیزی اور اخلاق کی شدت و غلاظت دلوں کو چھیل ڈالتی ہے اور تبلیغ و مبلغ سے بیگانہ ہی نہیں بلکہ متنفر کردیتی ہے۔ اس پر رسول اکرمؐ کی رحمت و شفقت خصوصی ارشاد تھا۔ فبما رحمۃ من اللّٰہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک فاعف عنھم واستغفرلھم۔